افغانستان کے پچاسی فیصد علاقے پر ہمارا کنٹرول ہے، طالبان کا دعویٰ کیا سچ ہے؟

0
dw

ماسکو میں موجود طالبان کے ایک وفد نے جمعے کے روز دعویٰ کیا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقے اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ طالبان کے وفد نے ایک مرتبہ پھر روس کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ افغانستان کی بیس سالہ جنگ کے بعد نیٹو افواج اس ملک سے اپنا انخلا تیز کر چکی ہیں جبکہ طالبان کو پے در پے کامیابیاں مل رہی ہیں اور وہ ملک کے مزید علاقوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔

روس کے خدشات
چند روز قبل طالبان کے ایک حملے کے بعد سینکڑوں افغان فوجی سرحد عبور کرتے ہوئے تاجکستان فرار ہو گئے تھے۔ اس پیش رفت کے بعد روس اور تاجکستان نے ایک مرتبہ پھر خدشات کا اظہار کیا تھا کہ عسکریت پسند اور دیگر انتہاپسند گروہ وسطی ایشیا کے دیگر ملکوں میں گھس سکتے ہیں۔ روس نے جمعے کے روز کہا کہ طالبان افغان تاجک سرحد کے دو تہائی حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔ ماسکو حکومت نے افغانستان میں تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

روسی وزارت خارخہ کی ترجمان ماریا زخارووا کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”ہم نے تاجک سرحد پر تناؤ میں تیزی سے اضافہ دیکھا ہے۔ طالبان کی تحریک نے تیزی کے ساتھ سرحدی اضلاع کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور اس وقت سرحد کے دو تہائی حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔‘‘ روسی وزارت خارجہ کے مطابق ماسکو افغان تاجک سرحد پر اضافی اقدامات کے لیے تیار ہے تاکہ افغانستان کے معاملات اس کی سرحد کے اندر ہی رہیں۔

دوسری جانب طالبان نے روس کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش جیسی تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے اور اپنے ملک سے منشیات کی پیداوار کا بھی خاتمہ کر دیں گے۔ طالبان کے اسی وفد نے گزشتہ روز روسی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ طالبان اب تاجک افغان سرحد پر بڑی کارروائیاں نہیں کریں گے۔

طالبان کا نیا منصوبہ
روسی نیوز ایجنسیوں نے ملک میں موجود افغان وفد کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان اس وقت افغان حکومت کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کے مطابق اگر دوحہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ اپنی پیش قدمی فوری طور پر روک دیں گے۔

چند روز قبل نیوز ایجنسی روئٹرز نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان جلد ہی افغان حکومت کو ایک امن معاہدے کی تحریری تجویز پیش کرنے والے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان مجوزہ تحریری معاہدے میں ایک ایسا حل پیش کرنے والے ہیں، جو بیرونی دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔

طالبان کی پیش قدمی ایرانی سرحد کی جانب
دریں اثناء طالبان عسکریت پسندوں نے ملک کی دو اہم تجارتی گودیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ ملک کی اہم کمرشل پورٹس میں سے ایک ہے۔ صوبائی کونسل کے رکن حبیب ہاشمی کے مطابق وہاں بغیر کسی مزاحمت کے ہی تمام تر انتظام طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ بدعنوانی کے باوجود اس پورٹ سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں حکومت کو یومیہ تقریباﹰ چار ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم اب یہاں تمام تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔

اسی دوران طالبان نے شمال میں واقع تورغندی پورٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ترکمانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ تورغندی افغانستان کے لیے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں گیس، ایندھن اور تیل سمیت کئی مصنوعات کا بڑا حصہ اسی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ تجارتی گودی افغان مصنوعات یورپ سمیت عالمی منڈیوں کو برآمد کرنے کا بھی ایک اہم راستہ ہے۔

افغان میڈیا کی توپوں کا رُخ پاکستان کی طرف

طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق وہ افغانستان کے انتظامی مراکز پر حملے کرنے کے لیے آزاد ہیں اور اس حوالے سے ان کا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومتوں پر طاقت کے ذریعے کنٹرول حاصل نہیں کریں گے۔

ا ا / م م (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS