ہم اپنے ماضی کو دوبارہ لکھ کر تبدیل نہیں کر سکتے!

0

عبدالسلام عاصم

کچھ لوگوں کی تحریریں، تقریریں اور بیانات پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ بس خانہ جنگی کے انتظار میں بیٹھے ہیں، تاخیر سے پریشان ہورہے ہیں اور اندیشوں کے ادھ کھلے دروازوں کو پہلی فرصت میں پوری طرح وا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر نامہ نگار بھی ایسی ہر خبر کو اچھالنے میں لگے ہیں جو امکانات کے رخ پر انتہائی موہوم اور وسوسوں اور خدشات کے مصالحوں سے لپٹے ہوئے ہوں۔ ایسے میں کام کی بات کرتے ہوئے اور کسی کو درپیش حالات پر بہ اندازِ دیگر غور کرنے، سوچنے اور سمجھنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ باوجودیکہ کچھ لوگ پرورشِ لوح و قلم کے جذبے سے تائب نہیں ہوتے۔ ایسی ہی کچھ تحریروں سے گزرنے کے بعد ناچیز نے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی بساط بھر کوشش کی ہے کہ موجودہ ہندوستان کی پُرامن بقا اُس کی موجودہ خستہ حالی کے انسداد پر منحصرہے، ماضی کی ناکام کوششوں کے تذکرے پر نہیں۔
عصری ہندوستان کو چین اور پاکستان سمیت ایک سے زیادہ بدخواہوں کی شرارتوں کے باوجود فوری طور پر کسی خارجی خطرے کا سامنا نہیں۔ وطن عزیز کو اب داخلی محاذ پر اُس انتشار سے بچانا ہے جو بدقسمتی سے باہمی اشتراک کا نتیجہ ہے۔ سابقہ صدی میں بھی اگر ہندوستان کو وہ آزادی نہیںمل سکی جو اسے نفرت کی بنیاد پر دو ٹکڑے ہونے سے بچا لیتی تو اس کے ذمہ دار صرف مسلم لیگی نہیں بلکہ وہ کانگریسی بھی تھے جن کی وجہ سے وہ کابینی مشن ناکام ہوا جس سے ایک طرف سردار پٹیل نے بعض تحفظات کے باوجود اتفاق کر لیا تھا تو دوسری جانب محمد علی جناح کو بھی اس میں وہ حل نظر آنے لگا تھا جو ہندوستان کو افسوسناک تقسیم سے بچا سکتا تھا۔
واقعہ ہے کہ ہم نے بر صغیر میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور انسانی تہذیبی رابطے کو عقائد پر ترجیح دینے کی وہ کوشش کبھی نہیں کی، جس کی نسل آئندہ کی بہترین حفاظت کیلئے سخت ضرورت تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن کر تحفظ کا گلہ کرتے رہنے میں تقریباً ایک صدی ضائع کر دی جس میں تقسیم کے اندوہناک صدمے کے ساتھ ملنے والی آزادی کی سات دہائیاں بھی شامل ہیں۔ کل ماضی کے کچھ اوراق سے گزر رہا تھا۔ مطالعے سے اندازہ ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے نام پر ایک سے زائد حلقوں کی سازش سے بچانے میں ناکام رہ جانے والے مولانا ابوالکلام آزاد کو اگرچہ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جد وجہد آزادی کے حتمی مر حلے میں فرقہ وارانہ منافرت کی کھائی دونوں طرف کے انتہاپسند مقرروں کی وجہ سے اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اسے پاٹنا آسان نہیں باوجودیکہ وہ تدبیرات میں غلطاں رہے۔ اس بیچ برطانیہ نے ایک کابینی مشن روانہ کیا جس نے وقتی طور پر سہی مولانا کی ایک بالواسطہ کوشش والی سوچ کو مہمیز لگا دی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ کابینی مشن 23 مارچ 1946 کو ہندوستان پہنچاتھا۔ اُس وقت مولانا آزاد کُل ہند کانگریس کے صدر تھے، اس لیے اُنہی کو مشن سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ حالات کے اس موڑ پر مسلم لیگی جاگیرداروں کے جھانسے میں آجانے والے مسلمان چونکہ اپنے مستقبل کے تعلق سے بے حد پریشان تھے اور اس پریشانی کا حل انہیں قیام پاکستان میں ہی نظر آرہا تھا اِس لیے مولانا آزاد نے اِس رُخ پر بساط بھر مربوط تیاری کی تھی۔ وہ بس ایک ایسے حل کی طرف سب کو لے کر بڑھنا چاہتے تھے جو ملک کو تقسیم ہونے سے بچالے۔
مولانا نے کابینی مشن کے ذمہ داران سے ان کی آمد کے دو ہفتے بعد پوری ذہنی تیاریوں کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کیلئے انہوں نے فرقہ وارانہ نفرت کی بنیادکھوکھلی کرنے پر انتہائی غور و فکر سے کام لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ نفرت کی شدت کو دونوں طرف سے بھُنانے کی کوشش کرنے والے مٹھی بھر لوگوں کو قابو میں کرنے کی بہتر صورت یہ ہوگی کہ آزاد ہندوستان کے دستور کو ایسی وفاقی شکل دے دی جائے جس میں ریاستی حکومتیں وفاق کا اٹوٹ حصہ رہتے ہوئے وسیع ترخود مختاری رکھتی ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر متحدہ ہندوستان کے لیے انتہائی جذبہ رکھنے والوں نے اِس سے اتفاق کر لیا تومتحدہ ہندوستان میں مفروضہ خطرے سے نجات کا گمراہ کن خواب دیکھنے والے نام نہاد مسلم لیڈروں اورمسلمانوں سے جان چھڑانے میں عافیت محسوس کرنے کی حد تک سوچنا شروع کردینے والے ہندو حلقے کے جذبات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔
مولانا آزادنے کابینی مشن کے سامنے جب اپنا یہ حل پیش کیا تو مشن کے ذمہ داران نے اسے بہترین حل کے طور پر قبول کر لیا۔ اس کے بعد مولانا نے کامیابی کی ایک نہیں کئی منزلیں طے کیں۔ کانگریس کی مجلس عاملہ میں اپنی تجویز رکھی۔ مہاتما گاندھی کی تائید حاصل کی۔ سردار پٹیل نے بھی بعض وضاحتیں سننے کے بعد اس سے اتفاق کر لیا تھا۔ آخری رکاوٹ اس وقت دور ہوگئی جب محمد علی جناح کو انہوں نے قائل کر لیا کہ مسلمانوں کو بظاہرجو تشویش ہے، اُسے دور کرنے کیلئے پاکستان کے قیام کی نہیں بلکہ وسیع اختیارات سے لیس وفاقی ریاستوں والے ہندوستان کی ضرورت ہے۔ اس طرح بظاہر ہندوستان کو متحد رکھنے کے حق میں ماحول سازگار ہو نے لگا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اسے حتمی شکل دی جاتی، کانگریس کے صدر کی حیثیت سے مولانا کی میعاد ختم ہو گئی اور نئے صدر جواہر لعل نہرو نے ممبئی میں اس حل کی قبر کھود دی۔
سوچا جاسکتا ہے کہ پنڈت جی نے ایسا کیوں کیا؟ جواب یہ نہیں کہ وہ کوئی منفی ارادہ رکھتے تھے۔ جواب یہ ہے کہ اِس حوالے سے اُن کی سوچ امکانات سے زیادہ خدشات ر خی تھی۔ ایسا نہیں کہ انسانی زندگی میں اندیشے پیش نہیں آتے، لیکن سفر ہمیشہ امکانات کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اندیشوں سے بچنے کی بہتر اور موثر تجویز کی جاتی ہے، حادثات کے اندیشوں کی وجہ سے سفر ترک نہیں کیا جاتا۔ پنڈت جی کو شاید وسیع تر اختیارات والی ریاستوں پر مشتمل وفاقی ہندوستان کے اینٹی بایوٹک نسخے کے فیل ہوجانے کے اندیشے نے گھیر لیا تھا اور اُنہیں اِس علاج سے زیادہ آسان وہ عملِ جراحی نظر آیا جس نے ہندوستان کے دونوں بازو ؤں کی لمبائی کم کر دی۔
اگر آج متحدہ ہندوستان ہوتا تو چین کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شرارت بھی کرے اور اپنی شرارتوں کا اپنی ہی شرطوں پر جوازبھی پیش کرتا پھرے۔ پاکستان موجودہ چینی شرارت کا اٹوٹ حصہ ہے جو اپنے باقیماندہ وجود کو بچائے رکھنے کیلئے آج بھی اُسی سوچ پر گامزن ہے جس کی دھار ہمیشہ کیلئے کند ہوجاتی اگر کل کے سیاسی تدبر کو وقتی طور پر امکانات کی جگہ اندیشوں نے ہائی جیک نہیں کرلیا ہوتا۔ پنڈت جی نے تو بس حل کے راستے میں پیشگی خوف سے اسپیڈ بریکر لگائے، نام نہاد مسلم لیگ نے اُسے دیوار میں بدلنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔اینٹ اور گارے کی جگہ انسانی لاشوں اور خون سے چنی اس دیوار کے دونوں طرف اُن لوگوں کو تقسیم کی بھاری قیمت چکانی پڑی جن کا تعلق اپنی کمیونٹی کے خواص سے نہیں عوام سے تھا۔
آئین کی طرف سے تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اگر سیکولر ہندوستان اور اسلامی پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ کا کم و بیش گلہ ہے تو ہمارے یہاں اِس کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان میں سابقہ نام نہاد سیکولر حکومتوں نے اقلیتوں کے عدم تحفظ کا بس انتخابی کاروبار کیا۔ اقلیتی ووٹ بینک قائم کیے گئے اور مسلمانوں کے بنیادی انسانی مسائل کو جو ہندوؤں سے قطعی مختلف نہیں تھے، اس قدر فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی ضرورتوں کی تکمیل ہی بنیادی ضرورت نظر آنے لگی۔
ایسے میں کیا ہم اپنی خستہ حالی دور کرنے کیلئے ایک دوسرے کے بارے میں زائد از ستر برسوں سے پرورش پانے والی غلط فہمیوں سے آلودہ اقلیت اور اکثریت دونوں کی سوچ میں ایکدم سے تبدیلی لا سکتے ہیں! اگر جواب ہاں ہے تو دونوں حلقوں میں ایک سے زیادہ مجالس اورپریشد چلانے والے کوئی عملی تجویز سامنے لائیں اوریہ مان کر آگے بڑھیں کہ مستقبل کے پُر امن،جدت پسند، خوشحال اور ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کا تمام ترانحصار اِن چاروں حوالوں سے اب صرف موجودہ خستہ حالی کے انسداد پر ہے، ماضی کی اُن کوششوں کے تذکرے پرہرگز نہیں جو ملک کو متحد رکھنے میں ناکام رہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں فرقے اس ادراک سے کام لیں کہ ہم اپنے ماضی کو دوبارہ لکھ کر تبدیل نہیں کر سکتے۔اسے بدلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ناگوار یادوں سے اخذ کردہ مفہوم کو از سرِ نوسمجھا جائے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS