ہم ایک انقلابی دور سے گزر رہے ہیں: عمیر انس

0

عمیر انس

ہم ایک ایسے انقلابی دور سے گزر رہے ہیں، جہاں ٹیکنالوجی نے صحافت اور کمیونی کیشن کا پرانا نظریہ بدل دیا ہے، آج جس شخص کے پاس بھی کیمرے والا موبائل فون ہے وہ ایک ممکنہ صحافی ہے جو اپنے لیے مواد پیدا کرتا ہے اور اپنے لیے بڑا آڈینس بھی کھینچتا ہے، ایک صحافی کا مقابلہ صرف ایک صحافی سے نہیں، ایک اخبار کا مقابلہ صرف اخبار سے نہیں بلکہ ان کروڑوں لوگوں سے ہے جو کسی بھی لمحے ایک سنسنی خیز مواد وائرل کراکر سیکڑوں معتبر صحافیوں سے زیادہ مشہور اور معروف ہو جاتے ہیں، یہ تبدیلی شاید موجودہ مسلم صحافت نے بہت سنجیدگی سے نہیں لی اور موجودہ صحافت کے تقاضوں کے مطابق مواد پیدا کرنے کے کام کو ضروری نہیں سمجھا، اس مضمون میں ان سارے پہلوؤں پر گفتگو ممکن نہیں ہے لیکن اس بات سے قارئین ضرور متفق ہوں گے کہ معلومات کے اس انقلاب میں معلومات کو بہتر سے بہتر طریقے سے پیش کرنا اور اس کی مارکیٹنگ کرنا، اسے عوام اور ارباب اقتدار دونوں کے لیے قابل غور بنانا وقت کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر آپ دیکھیں گے کہ مسلم صحافت کے بعض کام بالکل نہیں ہیں۔ اگرچہ ملک کی عدالتیں اور جیلیں مسلم ملزمین سے بھری پڑی ہیں، اگرچہ مسلم تنظیمیں اور ادارے آئے دن قانون کے بے رحم ہاتھوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں، اگرچہ قانون کا من مانا استعمال مسلمانوں کی جان اور املاک کے ساتھ ظلم کرتا رہتا ہے لیکن آپ کو مسلم صحافت میں قانونی معاملات پر اختصاص کرنے والے صحافی، اخبارات، پورٹل اور یوٹیوب چینل کی کمی محسوس ہوگی۔ آپ کو ایک بھی ایسی ویب سائٹ نہیں ملے گی جس میں صرف مسلم مقدمات کی کوریج ہوتی ہو، ظاہر ہے سیکڑوں مسلمان اور غیر مسلم حضرات ہیں جو قانونی مسائل کو پڑھنے اور سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان میں سے تین ویب سائٹس، دو تین یوٹیوب چینلس محض قانونی مسائل کی کوریج کے لیے ہوں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم عوام زیادہ باخبر ہوں گے اور مسلم ملزمان کے مسائل زیادہ سنجیدگی اور پابندی سے کور ہوں گے۔ اب تو بہت سارے مسلم وکلا ہر سطح کی عدالتوں میں موجود ہیں، ان سے اور پولیس و انتظامیہ کے ساتھ معلومات لیتے ہوئے مسلمانوں کی قانونی صحافت کا ایک نیا باب شروع ہونا چاہیے۔ اسی طرح سے صرف تاریخی عمارتوں، مساجد اور اوقاف کی کوریج کے لیے خاص کوئی ویب سائٹ، یا یوٹیوب چینل نہیں ملے گا، آپ کو اگر یہ لسٹ چاہیے کہ گزشتہ سالوں میں کتنی مساجد پر دعوے کیے گئے ہیں، کتنی مساجد پر پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں اور کون سی مساجد خطرے میں ہیں اور ان کی تازہ ترین تصویریں کیا ہیں، بلکہ کون سی مساجد مثالی مساجد کا کردار ادا کر رہی ہیں اور مساجد کے روز مرہ کے کیا مسائل ہیں، ایک ایسی ویب سائٹ جہاں آپ کے علاقے یا ریاست یا پورے ملک کی مساجد کی خبریں ایک جگہ مل جائیں، یا آپ کی اوقاف کی خبریں مل جائیں، بلکہ اوقاف تو خود ایک مستقل صحافتی جستجو کا مرکز ہونا چاہیے کیوں کہ اوقاف مسلم کرپشن اور انتظامیہ کی بے حسی کا سب سے بڑا شکار ہے، لیکن مسلم صحافت میں اوقاف پر مرکوز ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل بہت کم نظر آتے ہیں، ظاہر ہے کہ مسلم عوام تو خبروں کے اس بڑے میدان سے بے خبر تو ہیں ہی خیرخواہ برادران وطن اور انتظامیہ بھی مسلم شکایتوں سے باخبر نہیں ہوپاتے ہیں۔ اردو صحافت بڑی عجیب ہے کہ وہاں آپ کو مسلم اداروں کے کرپشن اور ان کی بد انتظامی اور تبصرے و خبریں کہیں نظر نہیں آئیں گی۔ مسلمانوں کے معاشی مسائل تو ایسے ہیں کہ جن پر انسائیکلوپیڈیا بھی لکھی جائیں تو کم ہیں لیکن آپ کو مسلم صحافت سے یہ موضوع سرے سے غائب ملے گا۔ کسی علاقے کے مسلم مزدوروں کے استحصال کی خبر، کسی علاقے کے مسلم تاجروں کے مسائل، صنعت کاروں کے مسائل، پروفیشنلز کے مسائل سمیت یہ میدان ایسا ہے کہ جس پر دوچار کیا دس بیس ویب سائٹ بھی کم ہیں۔ آپ مسلمانوں کے معاشی مسائل پر فوکس کرنے والے دو چار یوٹیوب چنیلز کے نام بتائیں؟ اردو اخباروں میں مسلمانوں کے معاشی مسائل اور شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں کا جائزہ لیا جانا جانا چاہیے، اندازہ ہوتا ہے کہ ایڈیٹر حضرات کے نزدیک مسلمان گویا کہ تمام معاشی مسائل حل کر چکے ہیں اور اب ان پر خبر نویسی، بریکنگ نیوز اور خصوصی کوریج کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم کے اخبارات میں اس قوم کے سب سے اہم ترین مسائل کے لیے کوئی جگہ نہ ہو اور ان کی سرگرمیوں کی کوئی حیثیت نہ ہو تو وہ قوم کیونکر اپنے مسائل کی مؤثر نمائندگی کر سکتی ہے۔ غربت اور معاشی پسماندگی سب سے اہم مسئلہ ہونے کے باوجود ملت کے تمام قائدین اور جماعتوں کی دس سالوں کی ساری تقریروں، جلسوں اور تحریری گفتگو میں معاشی مسائل کا ذکر نفل نماز سے بھی کم ہے،نئی مسلم صحافت کو یہ چلن ختم کرنا ہوگا۔ آج کی صحافت میں آپ کو ہر میدان زندگی کے لیے وقف تنظیمیں، افراد اور ویب سائٹس ملیں گی، لیکن آپ مسلمانوں کے درمیان مسلمانوں کے مسائل کے ماہرین کی لسٹ تلاش کریں تو ماہرین کی لسٹ میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم نظر آئیں گے، جو بجائے خود اگرچہ اچھی بات ہے لیکن یہ اس بات کا بھی اشارہ کرتا ہے کہ مسلمان اس میدان میں مہارت حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ زیادہ سے زیادہ برادران وطن ہماری پسماندگی میں ہمارے ہمدرد بنیں لیکن ہمارے نوجوان بھی اس میں اپنی ماہرانہ نظر رکھنے والے ہوں۔ میرا تو مشاہدہ یہاں تک ہے کہ خود تربیتی مسائل میں مسلمانوں کی کوششیں باقی دنیا کے مسلمانوں سے انتہائی پسماندہ اور غیر معیاری ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے یوٹیوب پر معیاری اسلامی پروگرام ہوں یا دینی مسائل میں رہنمائی والے ویڈیوز کی تیاری کا کام میری سمجھ سے باہر ہے کہ مدارس اسلامیہ کیا مریخ پر رہ رہے ہیں یا چاند پر کہ انہیں مسلمان بچوں اور بچیوں کے لیے جدید وسائل سے تربیتی مواد تیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، انہیں لگتا ہے کہ آج کے بچے اور نوجوان ان کی ثقیل اردو والی خشک تقریروں سے خوش ہوں گے؟ ذرا ترکیہ کے دینی اداروں کی کوششوں کو دیکھیں، انہیں انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنے بچوں کی پوری فکر ہے۔دو چار مدارس اور علماء کو چھوڑ کر مدارس اسلامیہ سوشل میڈیا کے بہتر اور مؤثر استعمال میں صریحاً ناکام ہیں اور انہیں اپنی ناکامی کی خبر ہے اور نہ پشیمانی۔حالانکہ مدارس کے پاس بہترین عمارتیں بھی ہیںاور افراد بھی، محض معمولی ٹریننگ سے وہ لاکھوں افراد کو متاثر کرنے والے تربیتی، دعوتی مواد تیار کر سکتے ہیں۔ اگر سو مدارس کے پاس دس دس لاکھ افراد تک پہنچنے والے یوٹیوب چینل ہوں تو آپ بھی اس انقلابی صحافت میں کامیاب رول ادا کرسکتے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ مسلمانوں کو موجودہ صحافت کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے اور اپنی کمزوریوں کو درست کرنے والے ہر طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ایک حقیقت ہے اور مسلمانوں کو اس میدان میں حصہ لینا ہوگا، اختصاص والے موضوعات میں اختصاص والی صلاحیت کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور یہ سارے کام آپ کی طرف سے صرف آپ کو ہی کرنے ہوں گے، کسی غیر کو نہیں۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS