کھرگے جی کانگریس کے تنظیمی ڈھانچہ پر بھی توجہ دیجیے: عبیداللّٰہ ناصر

0

عبیداللّٰہ ناصر

راہل گاندھی کی چار ہزار کلو میٹر لمبی بھارت جوڑو یاترا اور ملکارجن کھرگے جیسے سینئر دلت لیڈر کا جمہوری طریقہ سے کانگریس کا صدرمنتخب ہونا کانگریس کے لیے حیات نو دینے والی سنجیونی بوٹی ثابت ہوا ہے جس نے اسے ہماچل پردیش اور کرناٹک میں شاندار کامیابی دلائی اور مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ یہاں تک کہ راجستھان میں بھی کامیابی کے دہا نہ پر کھڑا کر دیا ہے، اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کے اتحاد میں اس کی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی کانگریس کے اندرونی چیلنج بھی منہ پھیلائے کھڑے ہیں۔کھرگے جی کو پارٹی صدر منتخب ہوئے نو مہینہ ہوگئے ہیں، رائے پور کے اجلاس میں جہاں ان کی صدارت کی توثیق ہوئی تھی ان کو پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی تشکیل کا اختیار دیا گیا تھا مگر اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد پارٹی کی یہ سب سے طاقتور پالیسی ساز کمیٹی کی تشکیل نہیں ہو سکی ہے اور سابقہ اسٹیئرنگ کمیٹی سے ہی کام چلایا جارہا ہے۔پارٹی کے آئین کے مطابق ورکنگ کمیٹی کے 75فیصد ممبروں کا انتخاب ووٹنگ سے ہوتا ہے اور باقی25 فیصد کو صدر نامزد کرتا ہے مگر حسب دستور رائے پور میں صدر کانگریس کو پوری کمیٹی تشکیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ پارٹی کی اندرونی خبروں کے مطابق پارٹی میں پرینکا گاندھی کے رول کو لے کر تذبذب بنا ہوا ہے۔پارٹی میں ایک طبقہ پرینکا گاندھی کو ورکنگ صدرر بنوانا چاہتا ہے، دراصل یہ وہ بے جڑ کے خودغرض طالع آزما لیڈران ہیں جو محض چاپلوسی کے بل پر پارٹی میں اہمیت اور عہدہ حاصل کر لیتے ہیں۔وہ خود تو شاید گاؤں پردھان اور کسی شہر کے کارپوریٹر کا بھی الیکشن نہ جیت سکیں لیکن ہر الیکشن میں پارٹی کے ٹکٹ کی تقسیم میں دخل اندازی کرتے ہیں، جس کی بہت بڑی قیمت اترپردیش اسمبلی الیکشن میں کانگریس ادا کر چکی ہے۔ اگر پارٹی میں کوئی ورکنگ صدر منتخب یا نامزد ہوتا ہے تو یہ اقتدار کے دو مرکز کھڑے کر دے گا، ظاہر سی بات ہے کہ اس حالت میں اگر پرینکا گاندھی ورکنگ صدر بنتی ہیں تو عملی طور سے سارے اختیار ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور کھرگے جی نام نہاد صدر ہی رہ جائیں گے۔ ابھی بھی بی جے پی، آر ایس ایس اور میڈیا کے مفسدین کھرگے جی کو ربراسٹامپ صدر کہتے ہیں، پرینکا گاندھی اگر ورکنگ صدر بن جائیں تو ان کا یہ الزام سچ ثابت ہوجائے گا اور پھر وہ طوفان بدتمیز ی اٹھے گا جسے روکا نہیں جا سکے گا اور راہل گاندھی کی اب تک کی ساری قربانی اور محنت پر پانی پھر جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق راہل گاندھی نے ورکنگ صدر کی تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ ان کے خاندان کے کسی شخص کو ایسے آؤ ٹ آف ٹرن کوئی بھی عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔پرینکا پارٹی کانگریس کی جنرل سکریٹری اور اترپردیش کی انچارج ہیں، اس کے علاوہ وہ پارٹی کی سب سے مقبول لیڈر بھی ہیں اور ہر الیکشن میں سبھی امیدوار ان کو سب سے زیاد طلب کرتے ہیں، حالانکہ اتر پردیش میں وہ بری طرح فلاپ ہو گئی تھیں جس کے بعد انہوں نے آج تک لکھنؤ کا رخ نہیں کیا ہے مگر اپنے چند معتمدین کے ذریعہ اترپردیش کانگریس کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں، مگر یہی معتمدین اترپردیش کانگریس کے زیادہ تر کارکنوں کی نظر میں اصل ولن ہیں، جنہیں مختلف ناموں سے یاد کرکے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ ریاستی صدر برج لال کھابری کی بھی ان لوگوں سے پٹری نہیں کھا رہی ہے۔ بہت دنوں سے یہ خبر اڑ رہی ہے کہ اترپردیش کو پرینکا گاندھی کی جگہ دوسرا جنرل سکریٹری ملنے والا ہے، کئی نام بھی سامنے آئے لیکن کس کے دباؤ میں نیا سکریٹری مقرر نہیں کیا جا رہا ہے، اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں اور کھرگے جی کی بھی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اترپردیش کانگریس اعلیٰ کمان کے شمار میں ہے ہی نہیں جس کی جنرل سکریٹری انچارج دو سال سے پارٹی کے ہیڈ کوارٹر نہیں آئیں اور جس کے قومی صدر کو اپنا منصب سنبھالنے کے بعد نو مہینوں میں اس طرف جھانکنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی، سب سے زیادہ پارلیمانی سیٹوں والی اس ریاست کی طرف سے کانگریس کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے ۔
کانگریس کے ہمدردوں کو ایک بات اور بھی بہت اکھر رہی ہے، صدر کانگریس کے انتخاب کے بعد امید تھی کہ کھرگے جی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے حریف ششی تھرور کو ویسی ہی اہمیت دیں گے جیسی سونیا گاندھی نے آنجہانی کنور جتندر پرساد کو دی تھی حالانکہ کنور صاحب کو سونیا گاندھی کے مقابلہ تین ہندسوں میں بھی ووٹ نہیں ملے تھے پھر بھی سونیا جی نے وسیع القلبی اور دوراندیشی کا مظاہر کرتے ہوے انہیں اپنا سیاسی مشیر مقرر کر دیا تھا، جبکہ اب تک کے صدر کانگریس کے جتنے ا نتخاب ہوئے، ان میں سب سے زیادہ تقریباً گیارہ سو وو ٹ پانے والے ششی تھرور کو کھرگے جی نے پارٹی میں وہ اہمیت اور کام نہیں دیا ہے جس کے وہ صحیح معنوں میں حق دار ہیں۔ ششی تھرور کو جو ووٹ ملے ہیں، اس سے ان کی مقبولیت ثابت ہوتی ہے، ویسے بھی کانگریس میں راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے بعد ذاتی مقبولیت میں اگر کوئی لیڈر سامنے آتا ہے تو وہ ششی تھرور ہیں۔ نوجوانوں، خواتین اور دانشوروں میں ان کی مقبولیت بے مثال ہے، وہ کسی بھی پارٹی کے لیے اثاثہ ہو سکتے ہیں، ان کی مقبولیت کسی خطہ اور طبقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی مقبولیت عالمی سطح کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیرالہ کے ہی وینو گوپال سے ان کی سیاسی رقابت کی وجہ سے انہیں ان کا واجب حق نہیں مل رہا ہے،جو بھی ہو ششی تھرور کی صلاحیتوں اور مقبولیت کا مناسب استعمال نہ کر کے پارٹی اپنا ہی نقصان کر رہی ہے ۔
کانگریس ہائی کمان کے سامنے ایک اور مسئلہ بھی منہ پھیلائے کھڑا ہے وہ ہے اتحاد کا مسئلہ۔اترپردیش میں اس وقت کانگریس کا گراف بڑھ رہا ہے اور سماج وادی پارٹی کا رو بہ زوال ہے، ریاست کے بیس فیصد مسلم ووٹروں کا رجحان کا نگریس کی طرف ہے، یہ رجحان اسمبلی الیکشن میں بھی واضح تھا کیونکہ ہر مسلم ووٹر کہہ رہا تھا کہ لکھنؤ میں اکھلیش دہلی میں راہل۔اس کے بعد کھرگے جی کے صدر کانگریس بننے اور ریاستی صدر برج لال کھابری جن کا تعلق بھی دلت سماج سے ہے، ان کی وجہ سے دلت ووٹوں کا رجحان بھی کانگریس کی طرف ہو رہا ہے، ایسے میں کا نگریسی کارکنوں کے حوصلے بہت بلند ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزر رہا ہے جب سو دو سو لوگ کانگریس میں باقاعدہ شامل نہ ہو رہے ہوں۔ سماج وادی پارٹی کی کل طاقت مسلم ووٹ ہیں جو اس سے برگشتہ ہو رہے تھے، اب اس سے اتحاد کر کے کانگریس نے سماج وادی پارٹی کو حیات نو دے دی جبکہ اپنے کارکنوں کی حوصلہ شکنی کی ہے، اس سے پارٹی کے وفاداروں میں ناراضگی ہے ۔حالانکہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے وہ قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تیس برسوں سے پارٹی قربانی ہی دیتی آ رہی ہے، اسی کے بل پر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی پھلی پھولیں اور کانگریس مسلسل نیچے گرتی رہی، ہر اتحاد سے اسے نقصان ہی ہوا ہے، ان کی نظر میں2009کا پارلیمانی چناؤ ہے جب ملائم سنگھ اسے5-6سیٹوں سے زیادہ دینے کو نہیں تیار تھے، مجبوری میں وہ اکیلے الیکشن لڑی اور21سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، اس بار بھی اکھلیش اسے اتنی ہی سیٹیں دینا چاہتے تھے مگر جینت چودھری اڑ گئے کہ یا تو کانگریس سے باعزت سمجھوتہ کرو ورنہ وہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیں گے، تب مجبوری میں اکھلیش سمجھوتہ کے لیے تیار ہوئے، پھر بھی سیٹوں کے بٹوارہ کا مرحلہ ابھی سامنے ہے، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سمجھوتہ کانگریس کے لیے نقصاندہ اور سماج وادی پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ ایک بزرگ کانگریسی نے کہا کہ ایک بار پھر کانگریس اپنے خون سے اپنے حریف کو زندگی دے رہی ہے۔ ویسے بھی یہ اتحاد دو دھاری تلوار ہے کیونکہ مسلم ووٹروں کے علاوہ ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹ سماج وادی-کانگریس اتحاد کو ہی جائے، اس سے کاؤنٹر پولرا ئزیشن کا بھی خطرہ ہے۔2017 کے اسمبلی الیکشن میں اگر سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد نہ ہوا ہوتا تو بی جے پی کو مکمل اکثریت ملنا مشکل ہوجاتا، یہ کاؤنٹر پولر ائزیشن کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ بہر حال دونوں پارٹیوں نے ایک ضروری خطرہ مول لیا ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ بہار اور اترپردیش دونوں جگہ زیادہ دب کر سمجھوتہ کرنا کانگریس کے حق میں بہتر نہیں مانا جا رہا ہے۔
راہل گاندھی اپنی بھارت جوڑو یاترا کا دوسرا مرحلہ گجرات کے پوربندر سے شروع کرنے جا رہے ہیں، اس بار وہ ہندی بیلٹ خاص کر مدھیہ پردیش، اترپردیش اور بہار میں زیادہ وقت گزاریں گے، ان کی اس یاترا سے اس خطہ میں بھی کانگریس کو فائدہ ہوگا لیکن کھرگے جی کو تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے ،وہ صدر کانگریس ہیں پارٹی میں جس کے اختیارات لا محدود ہوتے ہیں۔ دوسرے راہل اور سونیا جی پوری طاقت سے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ ورکنگ کمیٹی کی تشکیل نو کرکے اسے فعال کریں۔ اترپردیش کانگریس کے لیے کل وقتی تیز طرار، محنتی، ایماندار جنرل سکریٹری مقرر کر کے یہاں کا جمود توڑیں تبھی جا کر کانگریس کی تاریخ میں انہیں جو مقام ملا ہے، اس کے ساتھ انصاف کر کے پارٹی کی تاریخ میںراہل کے ساتھ اپنا نام درج کرا سکتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS