ہم نے لاشوں کو بھی انسان پر ہنستے دیکھا: زین شمسی

0

زین شمسی

دانشورانہ سکوت کے اس عالم میں جن لوگوں کے ہاتھ قلم ہوئے، انہوں نے اپنی انگلیوں کی جنبش موبائل پر تفریحی پروگرام پر دینی شروع کردی۔ انہیں شدت سے یہ احساس ہو چلا کہ لکھتے رہنے کی عادت اور لکھنے و بولنے والوں کا انجام اچھے دنوں کے لیے کم ازکم اچھا نہیں ہے۔ اس لیے وہ گوشہ نشیں ہوتے گئے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ اور ’دی کوئنٹ‘ کے کچھ صحافی حضرات بجھتے چراغ میں تیل ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں تو وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دراصل سچ لکھنا یا سچ بولنا بہت جوکھم کا کام نہیں ہے، لیکن سچ سننے والا سماج ہی ختم ہوجائے تو بولنے یا لکھنے کے فائدے ہی کیا؟ اسی لیے جو لوگ سچ نہیں لکھ سکتے وہ گوشہ نشیں ہوگئے اور جو سچ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں وہ بھارت سے باہر جاکر اظہارخیال کرنے پر مجبور ہیں کہ کم ازکم وہاں ان کی آواز نظرانداز نہیں کی جائے گی۔
تفریحی پروگرام بھی اب تفریح بہم کہاں پہنچاتے ہیں۔اب تو کپل شرما شو سے زیادہ انجنا، سدھیر، پرنب کا شو زیادہ مزیدار ہے، جہاں تمام موضوعات کو ماضی کی غلطیوں میں سمیٹ کر مستقبل کی راہ مشکل بنانے کی کسرت جاری ہے۔ جو لوگ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہیں ان کے لیے نیوز چینل کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں۔ نیوز چینل مسخروں کا مجمع ہوچکا ہے، جہاں وہاٹس ایپ کی جانکاریاں قومی مباحثہ کا حصہ بنائی جارہی ہیں۔ ونیش پھوگٹ، ساکشی ملک کے اداس چہرے کو مسکراتا چہرہ بناکر پیش کرنے کی تکنیک کو ٹی وی والے بغیر فیکٹ چیکر کے صحیح ثابت کرنے پر مصر رہے بغیر کسی شرم کے۔
ایک آل ٹائم مقبول فلم دیکھی ’’مغل اعظم‘‘۔ این سی ای آر ٹی نے مغل حکمرانی پر پردہ ڈال دیا ہے۔ فلموں پر بھی نئی حکومت کا نزلہ گرچکا ہے۔ کیرالہ اسٹوری اور کشمیر فائلس کو مشتہر کرنا حکومت کا فرض عین بنا جسے سب نے دیکھا، دوسری طرف عامر، سلمان اور شاہ رُخ کی فلموں کو فلاپ کرنے کا ٹھیکہ حکومت کی دلدادہ تنظیموں کے سپرد کردیا گیا۔ ایسے میں نئی فلمیں بھی سیاست کے نرغے میں آچکی ہیں۔ ’’مغل اعظم‘‘ یوں تو تاریخ کے کسی باب کا حصہ نہیں ہے مگر وہ مغلوں کی جاہ و حشمت کا آئینہ ہے۔ اس کے تمام مکالمے وزن دار ہیں۔ مگر جب اسے نئے سیاسی و سماجی پس منظر میں دیکھ رہا تھا تو دو مکالمے متاثر کرگئے۔ ایک شہنشاہ اکبر کے ذریعہ ادا کیا گیا مکالمہ ’’شہنشاہ کے حکم میں اس کا انصاف ہے‘‘ اور دوسرا سلیم کے ذریعہ ادا کیا گیا مکالمہ ’’جب مورخ سلیم انارکلی کی داستان محبت لکھے گا تو اس میں شہنشاہ اکبر کی موت پہلے ہوگی‘‘۔ یہ دونوں مکالمے آج کے سیاسی سیاق و سباق پر کھرے اترتے ہیں۔ غور کیجیے گا تو عقدہ کھل جائے گا۔ پہلے مکالمے کو این آر سی، کسان بل سے جوڑ کر دیکھئے اور دوسرے کو تمام میں پھیلی نفرت کی دکان سے ملا لیجیے۔ ایک تازہ فلم ’’ایک ہی بندہ کافی ہے‘‘ جسے پہلے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کیا گیا، بعد میں سنیما گھروں میں دکھائی گئی۔ اس فلم کا ایک مکالمہ ’’دفاعی وکیل کا زور صرف اس بات پر ہے کہ ملزمہ کو بالغ ثابت کردیا جائے تاکہ ظالم پر ’پوکسو ایکٹ‘ کا نفاذ نہ ہوسکے۔ آج کے پس منظر میں آپ اسے ’’بیٹیوں‘‘ کی انصاف مہم سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ دراصل جہاں میڈیا نے خود کو گھٹنوں پر رہنا پسند کیا ہے، وہیں ادب اور فلم آج بھی سماج کو کسی نہ کسی بہانے سچائی کی راہ پر دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کیوں کہ جذبات و احساسات، صبر و اخلاق کسی سیاست کے زیرنگیں نہیں آتے، وہ اتنے حساس ہوتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اظہار کے مواقع ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پابندیوں کو توڑنا ان کی خصلت میں شامل ہے۔
ٹرین حادثے نئے نہیں ہیں۔ جب سے ریل گاڑیوں کا سفر شروع ہوا، تب سے حادثے بھی شروع ہوئے ہیں، کوئی بھی بڑا حادثہ انسان کو مایوس و غمزدہ کردیتا ہے۔ مگر اب یہ چلن بھی بدل چکا ہے۔ حادثوں میں سیاست کا بول بالا ہے۔ تین ریل گاڑیوں کی آپس میں ٹکر بلاشبہ انتظامیہ کی کاہلی اور خامیوں کا نتیجہ ہے، مگر بکھرتی لاشوں پر بھی سیاست کا سایہ دلخراش داستان بیان کرتا ہے۔ کسی کو اس حادثہ میں ’’مسجد‘‘ دکھائی دے جاتی ہے، کسی کو اس حادثہ میں پردھان منتری کی جے جے کار سنائی دے جاتی ہے، کسی اینکر کو شدید گرمی میں مودی جی کا وہاں آنا روہانسا کردیتا ہے۔ اسے اس بات کا صدمہ کم ہے کہ لاشوں کا انبار ہے جتنا اس بات کی فکر ہے کہ پردھان منتری اس گرمی میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں۔ کسی کو ان کے بار بار لباس تبدیل کرنے سے پریشانی ہے، کسی کو اس بات پر حیرانی ہے کہ اس سے بڑا حادثہ ماضی میں ہوچکا ہے تو اس حادثہ پر سوال کیوں کھڑے کیے جارہے ہیں۔ یعنی انسانیت کہیں کسی کونے میں دفن ہوگئی ہے۔ لاشوں کے انبار بھی آنکھوں میں آنسو نہیں لا پارہے ہیں۔ دل بھی خشک اور اشک بھی خشک، ہم کہاں چلے آئے۔
ابھی کچھ ایک دو سال پہلے کورونا میں لاشوں کے ڈھیر پر سیاست کا کھیل سب نے دیکھا تھا۔ کسی کے کاندھے پر بیوی کی لاش تھی تو کسی بیٹے کے کاندھے پر باپ کی لاش، ندیوں پر لاشیں تو سڑکوں پر اموات۔ اب ہم لاشوں پر روتے نہیں ہیں بلکہ لاشیں ہم پر ہنستی ہیں کہ ہماری تو جان گئی تمہارا تو ضمیر و جذبات سب گیا۔ تم زندہ لاش ہو، جس میں انسان کی رمق باقی نہیں رہی۔ظفر اسلم بھائی کا شعر ہے کہ:
ایسا منظر بھی نگاہوں سے گزرتے دیکھا
ہم نے لاشوں کو بھی انسان پہ ہنستے دیکھا
کبھی کسی کی موت کی خبر آتی تھی تو گھروں میں چولہے ٹھنڈے کردیے جاتے تھے مگر دنیا اب اس مقام پر ہے کہ ’’لائیو مرڈر‘‘ دیکھ کر لوگ تالیاں بجاتے نہیں تھکتے۔ ماب لنچنگ،لائیو انکاؤنٹر، لاشوں کو فریج میں رکھنے کا منظر، لوجہاد کے نام پر سرراہ قتل عام بات ہوگئی۔ گویا قتل عام تو اب کوئی بات ہی نہیں، اب قتل کو عام ہوتے دیکھا جارہا ہے۔ نفرت پھیلانے کے لیے بڑے مجمع کیے جارہے ہیں، بڑے بڑے لوگ سرعام طمنچہ اور تلواریں رکھنے کی ترغیب دیتے نظر آرہے ہیں۔ آئینی ادارے خاموش تماشائی بن کر مجبور اور بے بسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ آخر ہم کدھر جارہے ہیں اور اگر جارہے ہیں تو کیوں جارہے ہیں؟ 21ویں صدی میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو بھارت کا مورخ کسے موردالزام ٹھہرائے گا۔ کیا واقعی شہنشاہ کا حکم ہی انصاف ہے؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS