جنگیں اخلاقیات کیلئے نہیں لڑی جاتیں !: پرفل بخشی

0

پرفل بخشی (ریٹائرڈ) ونگ کمانڈر

فضائیہ کے تجربہ کار، معزز اور عالمی انسانی قوانین (مسلح تصادم کے قوانین) کے ماہر اور انسٹرکٹر، (ریٹائرڈ)ونگ کمانڈر پرفل بخشی کا نام محتاج تعارف نہیں۔ وہ 1971 کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دفاعی اور سلامتی امور کے ماہر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ فضائیہ سے وہ باضابطہ طور پر 1968 میں وابستہ ہوئے تھے، اگر ٹریننگ کی مدت بھی شامل کر لی جائے تو ان کی مدت کار 32 سال پر مشتمل رہی۔ (ریٹائرڈ)ونگ کمانڈر پرفل بخشی 37 ممالک کی مسلح افواج کو ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ٹریننگ میں جوانوں کو یہ بتانے پر ان کا زور رہتا ہے کہ جنگ انسانیت اور ثقافت کا خیال رکھتے ہوئے، ہدف تک محدود رہ کر کی جائے، شہریوں، زخمیوں اور ہتھیار ڈال چکے فوجیوںکے ساتھ دشمنانہ سلوک نہ کیا جائے۔(ریٹائرڈ)ونگ کمانڈر پرفل بخشی کے جوش وولولے میں آج بھی کمی نہیں آئی ہے، وہ متحرک ہیں۔ این جی او، ایسوسی ایشن آف ایشیا پیسیفک یونین کے 2019-2022 تک صدر رہے، اب اس سے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ موجودہ عالمی حالات (ریٹائرڈ) پر ونگ کمانڈر پرفل بخشی سے نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، خاورحسن کی گفتگو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں:

موجودہ عالمی حالات آپ کے لیے امید افزا ہیں یا مایوس کن؟
امید افزاہیں۔ ہندوستان کی لیڈرشپ مضبوط ہے۔ بڑی مضبوطی سے وہ ابھر رہا ہے۔ ہند نژاد لوگ دنیا بھر میں صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سنک ہند نژاد ہیں۔ امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس ہند نژاد ہیں۔ کئی اور ملکوں میں بھی ہندنژاد لیڈران ہیں۔ ہندوستان کے پروفیشنل پوری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ جرمنی، آسٹریلیا، کنیڈا میں ہند نژاد لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ ہندوستانیوں کا یہ پھیلاؤ، ہندوستان کی یہ ترقی یوروپی اور ناٹوممالک کے لیے صدمے کی بات ہے۔ انہیں ہماری ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے۔ اسی لیے کہیں سکھ-ہندو پرابلم ہے، کہیں ہندو- مسلم کے مسئلے پیدا کیے جارہے ہیں۔

مذہب کی بنیاد پرمنافرت پیدا کرنے والے تو ہمارے ملک میں بھی کئی ہیں؟
جی ہاں، یہ بات صحیح ہے۔ ہمارے ملک کے لوگوں کے منافرت پھیلانے سے ان کا کام آسان ہو جاتاہے۔ ہماری کمزوریاں ان کی طاقت ہیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پرقابوپاناہوگا۔

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ سے پہلے کی دنیا اور بعد کی دنیا میں فرق ہے؟
بالکل کہہ سکتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ناٹو بنایا تھا۔ اس کے جواب میں سوویت یونین نے وارساپیکٹ کی تشکیل کی تھی۔ دونوں کے درمیان برسوں سرد جنگ چلتی رہی۔ پھر وارساپیکٹ تحلیل کر دیا گیا اور سوویت یونین بکھرگیا۔ وارساپیکٹ کے ملکوں نے ناٹو کا ساتھ پکڑا۔ روس کی حالت خراب تھی۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ انہیں ناٹو سے وابستہ ہونے سے روک سکتا، البتہ دھیرے دھیرے اس نے خود کو مضبوط کیا۔ روس، یوکرین کو کنٹرول کرناچاہتا تھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یوکرین ناٹو کا ممبر بنے اور اس کے پڑوس تک ناٹو پہنچ جائے۔ 2014 میں اس نے یوکرین سے کریمیا چھینا۔ یہ یوکرین کو انتباہ تھا کہ وہ ناٹو کی رکنیت لینے سے باز رہے۔ یوکرین نہیں مانا۔ ناٹو کی رکنیت لینے کی اس کی خواہش ختم نہیں ہوئی اور روس کو اس پرحملہ کرناپڑا۔

تو کیا ناٹو کا پھیلتا ہوا دائرہ ہی یوکرین جنگ کی اصل وجہ ہے؟
جی ہاں، ناٹوکی توسیع ہی یوکرین جنگ کی اصل وجہ ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پہنچا، روس خاموش رہا مگر یوکرین کے معاملے میں خاموش رہنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اب اس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اور امریکہ روس سے براہ راست جنگ کرنے کے بجائے یوکرین کو ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔ روس کے ساتھ چین ہے۔ روس نے اگر پولینڈ یا کسی ناٹو ملک پر حملہ کر دیا اور امریکہ خاموش رہ گیا یا یوکرین والی پالیسی پر قائم رہا تو پھر ناٹو بکھر جائے گا۔

کیا یوکرین جنگ عراق کی پہلی جنگ کی طرح ہی اہم ہے؟ عراق جنگ سے امریکہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ دنیا کی واحد سپرپاور وہی ہے تو کیا اب یوکرین جنگ سے روس یہ دکھانا چاہتا ہے کہ دنیا یک محوری نہیں،کثیر محوری ہے؟
میں یہ مانتا ہوں کہ عراق کی پہلی جنگ کی طرح ہی یوکرین جنگ بھی بے حداہم ہے۔ عراق کی پہلی جنگ تیل کے کھیل نے کروائی تھی۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو مرعوب کرنا چاہتا تھا، دنیا پر اپنی دھاک بیٹھانا چاہتا تھا اور اس نے ایسا کیا۔ اس وقت روس اور چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جنگ کرنے سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ پھر امریکہ نے دوسری عراق جنگ کی۔ یہ بھی اپنے مفاد کے لیے کی، کیونکہ یہ جنگ اس الزام کے تحت ہوئی تھی کہ عراق کے پاس عام تباہی کے ہتھیار ہیں جبکہ یہ ہتھیار اس کے پاس نہیں تھے۔ دراصل جنگیں اقتصادیات کے لیے لڑی جاتی ہیں، اخلاقیات کے لیے نہیں۔ کہا بھی جاتا ہے- زر، زمین، زن جھگڑے کی جڑ ہیں لیکن زر ہو توباقی کی دونوں چیزیں آ ہی جاتی ہیں۔

یوکرین جنگ روکی نہیں جاسکتی تھی؟
روکی جا سکتی تھی لیکن دنیا میں ہتھیار کا کاروبار بھی ایک حقیقت ہے۔ جنگ سے پہلے پوتن اور زیلنسکی ملنے والے تھے لیکن امریکہ نے بورس جانسن کو بھیجا۔ وہ کیوں گئے؟ ان کے جانے کے بعد زیلنسکی نے روس سے مصالحت کی پالیسی کیوں نہیں اختیار کی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب میں جنگ کا جواز پنہاں ہے۔ دراصل روس کو پتہ نہیں کہ ناٹو کس حد تک جائے گا، اس لیے جنگ کرنا اس کی مجبوری تھی تاکہ ناٹو کی توسیع اس کے پڑوس تک نہ ہو۔ اب یوکرین جنگ ہو رہی ہے تو امریکہ ہتھیار بھیج کر پیسے کما رہا ہے۔ ہتھیار کے کاروباری یہ جنگ آسانی سے رکنے نہیں دیں گے۔ عراق جنگ سے بھی امریکہ کو فائدہ ہوا تھا۔صرف ہتھیاروں کی سپلائی سے اسے 2.5 ارب ڈالر کا فائدہ ہواتھا۔

چین روس کے ساتھ ہے۔ یوکرین جنگ سے چین کو بھی کچھ بالواسطہ فائدہ ہو رہا ہے؟
چین کے لیے جنوبی بحیرئہ چین کا علاقہ بے حداہم ہے۔ یوکرین جنگ کا فائدہ اٹھاکر وہ اس علاقے پر اپنا قبضہ مضبوط کرنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ راستہ اس کے لیے تجارت کے لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ یہ عالمی آبی گزرگاہ ہے۔ چین جانتا ہے کہ اس پر قبضہ ہو جانے سے وہ کافی مضبوط ہو جائے گا لیکن امریکہ ایسا ہونے دینا نہیں چاہتا۔

بحیرۂ جنوبی چین میں برونئی، تائیوان، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، ویتنام کے علاقوں پر اور بحیرۂ شرقی چین میں جاپان اور جنوبی کوریا کے علاقوں پر چین دعوے کرتا ہے۔ متذکرہ ملکوں کے ساتھ ہندوستان کوئی مضبوط گروپ نہیں بنا سکتا کہ اس علاقے میں اس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو؟
امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ہندوستان کواڈ کا حصہ ہے۔ یہ ایک طاقتور گروپ ہے۔ اس سے ہندوستان کی اس خطے میں پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایسوسی ایشن آف ایشیا پیسیفک یونین کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس خطے کے ممالک اقتصادی، سماجی اقتصادی، صنعتی، دہشت گردی اور سائبرحملوں کے خلاف جنگ میں، خلا اور سیاحت میں ایک دوسرے کا تعاون کریں اور باہمی مفاد کا خیال کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ دراصل حالات حاضرہ سے ہندوستان ناواقف نہیں ہے۔ چین کی سرگرمیوں اور روس کی اہمیت سے وہ واقف ہے۔ انڈمان و نکوبارسے محض 55 کلومیٹر دور میانمار کے کوکوآئی لینڈ میں چین گھس آیا ہے۔ اسے میسیج دینے کے لیے ہندوستان نے مغربی بنگال کے کلائی کنڈا ایئرفورس اسٹیشن میں امریکہ کے ساتھ فوجی مشق کی۔ دوسری طرف ہندوستان کے روس سے بہترین تعلقات ہیں۔ ہندوستان کی روس پالیسی بالکل صحیح ہے۔ ہمارے پاس 85 فیصد ہتھیار روسی ہیں۔ روس بھی کبھی نہیں چاہے گاکہ ہندوستان کاساتھ اس سے چھوٹے۔ چین سے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بھی اسے ہندوستان کی ضرورت ہے۔

دو سخت مخالف ملکوں، ایران اور سعودی عرب میں مصالحت ہو گئی ہے۔ کیا کشمیر مسئلے پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی سمجھوتے کی امید کی جا سکتی ہے تاکہ ہندوستان کو پاکستان کے راستے ایران سے سستی گیس ملے؟
امریکہ نہیں چاہے گا کہ اس خطے میں امن آئے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاک فوج چین کا ساتھ چھوڑ دے لیکن وہ نہیں چھوڑ سکتی، کیونکہ چین پاکستان کی اکنامی چلا رہاہے۔ امریکہ پاک فوج کو مضبوط رکھنا چاہتاہے اور پاک فوج کی مضبوطی کے لیے کشمیر ایشو ضروری ہے۔ جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا، ہندوستان پاکستان کے درمیان ویزا ہٹا، پاکستان کے لوگوں کے لیے پاک فوج کی وہ اہمیت نہیں رہ جائے گی جو ابھی ہے۔ پاکستانیوں کے لیے آئی ایس آئی کی بھی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔ امریکہ کے لیے یہ باتیں ناقابل فہم نہیں، اس لیے کشمیر میں امن کی وہ باتیں ضرور کرتا ہے مگر دوسری طرف پاکستان کو ایف6-ابھی دیتا ہے۔ اقتصادی مدد بھی کرتا ہے۔

موجودہ عالمی حالات سے نمٹنے کے لیے کیا ہندوستان تیارہے؟
ہندوستان کی بہتر تیاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی بیسک انڈسٹری مضبوط ہو اور خارجہ پالیسی تگڑی ہو لیکن خارجہ پالیسی تب تگڑی ہوگی جب ہماری فوج مضبوط ہوگی، ہماری فوج تب مضبوط ہوگی جب ہماری ڈیفنس انڈسٹری تگڑی ہوگی اور ہماری ڈیفنس انڈسٹری تب تگڑی ہوگی جب ہماری بیسک انڈسٹری مضبوط ہوگی۔

آپ کو ایسا لگتاہے کہ نیو ورلڈآرڈر میں دبدبہ مشرق کا رہے گا؟
مشرق کا ہی دبدبہ رہے گا۔ آبنائے ملاکا کے راستے 80 فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔ مشرق کے مضبوط ہونے کا اثر اس عالمی آبی گزرگاہ پر پڑے گا۔ اس سے مشرق کادبدبہ بڑھے گا۔ ذرا سوچئے، ہندوستان، چین، جاپان اگر مل گئے تو مغرب کی کیا چلے گی؟ عالمی سیاست میں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اگر ناممکن ہوتا تو پھر ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت نہیں ہوتی، رشتے استوار نہیں ہوتے۔n

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS