یوروپ پر وار، ہندوستان کتنا تیار؟

0

کورونا کے خلاف جنگ میں مودی حکومت دنیا کی سب سے بڑی ویکسی نیشن مہم چلا رہی ہے۔ جتنا بڑا اس مہم کا دائرہ ہے، اتنے ہی مؤثر اس کے نتائج بھی نظر آرہے ہیں اور اس بات کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کی دنیا کے کسی بھی دوسرے عالمی لیڈر سے زیادہ ستائش بھی کی جارہی ہے۔ فی الحال ویکسی نیشن کے اعداد و شمار 115کروڑ کے نزدیک پہنچ رہے ہیں اور حکومت اس ماہ کے آخر تک ملک کی آبادی کے 90فیصد حصہ کو اس کے دائرہ میں لانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت ان دنوں کئی ریاستوں میں گھر گھر دستک مہم چلا رہی ہے، جس میں سرکاری عملہ ان لوگوں کے گھر پہنچ رہا ہے جو کسی وجہ سے ٹیکہ نہیں لگوا پائے ہیں۔
زمینی سطح پر چل رہی یہ کوشش کسی حصولیابی سے کم نہیں ہے۔ حکومت مرکز کی ہو یا ریاست کی، وہ عوام کے سامنے ان کوششوں کو پیش بھی اسی انداز میں کرتی ہے۔ لیکن اوپری طور پر راحت کا سبب نظرآرہے یہ انتظامات کیا واقعی اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ ہم نے کورونا سے جنگ جیت لی ہے؟ اگر جنگ جیتی نہیں ہے تو کیا اسے قابو میں کرلیا ہے؟ کیا اس سے ہمیں لاپروا ہوجانے کی آزادی مل گئی ہے؟ پھر اتنی بڑی تعداد میں ویکسی نیشن پر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کے ساتھ ہی حکومت بار بار ہمیں کورونا سے محتاط رہنے کی تاکید کیوں کرتی رہتی ہے؟ 100کروڑ سے زیادہ ویکسی نیشن کے اعدادو شمار چھوٹے موٹے نہیں ہوتے۔ پھر کیوں حکومت اسے 100فیصد تک لے جانے کے لیے اتنی پرعزم نظر آرہی ہے؟
دراصل اس کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے یوروپ سے مل رہے اشارے۔ کورونا کو تقریباً ’کھدیڑ‘ چکے یوروپ کے کئی ممالک پھر سے وبا کے مراکز بن گئے ہیں۔ پورے یوروپ میں اس وقت روزانہ کورونا متاثرین کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ نئے معاملات سامنے آرہے ہیں۔ یوروپ کی سب سے بڑی آبادی والے ملک جرمنی میں اس جمعرات کو یہ اعداد و شمار 50ہزار کو پار کرگئے۔ برطانیہ میں بھی ہر روز 30ہزار سے زیادہ نئے معاملات درج ہورہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں جرمنی میں 950 اور برطانیہ میں تقریباً 1200 کورونا مریض دم توڑ چکے ہیں۔ ہالینڈ ہو یا پولینڈ سب کا ایک جیسا حال ہے۔ بلجیم کورونا کی چوتھی اور فرانس پانچویں لہر کا سامنا کررہا ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کئی ممالک نے کرسمس سے متعلق بازاروں، سنیما گھروں، کیفے- ریستوراں اور مختلف تقاریب پر پابندی عائد کرنی شروع کردی ہے۔ عوامی مقامات پر فیس ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ پھر لازمی ہوگئے ہیں اور ورک فرام ہوم کی بھی واپسی ہوگئی ہے۔ عالمی صحت تنظیم نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالات سنبھالے نہیں گئے تو اس بار پورے یوروپ میں موت کے اعداد و شمار 5لاکھ کے پار جاسکتے ہیں۔
یوروپ میں چل رہے اس سلسلہ سے ہم کیا سبق لے سکتے ہیں؟ اس پورے معاملہ سے منسلک ایک اہم معلومات اس تعلق سے شاید ہماری بڑی مدد کرسکتی ہے۔ جن ممالک کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، وہ ایسے ممالک ہیں جو اپنی آبادی کے تقریباً دو تہائی حصہ کو ویکسینیٹ کرچکے ہیں۔ برطانیہ تو اپنی 90فیصد آبادی کو پہلا اور 70فیصد آبادی کو دوسرا ڈوز لگاچکا ہے۔ اتنا ہی نہیں، وہاں 20فیصد لوگوں کو تو بوسٹر ڈوز بھی لگایا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود اگر ان ممالک میں کورونا روکے نہیں رک رہا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ ویکسی نیشن انفیکشن کے خلاف ایک ہتھیار ضرور ہے، لیکن اگر ہم اسے کوئی ’رام بان‘ علاج سمجھ رہے ہیں تو ہم بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔
ہم دراصل کیا کررہے ہیں؟ وہی سب جس کی قیمت آج یوروپ چکا رہا ہے۔ عوامی مقامات پر ماسک لازمی ہے، لیکن سب لوگ نہیں لگاتے۔ سوشل ڈسٹینسنگ کا حال یہ ہے کہ بازار بھرے پڑے ہیں، تہواروں میں زبردست خریداری ہوئی ہے، سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی بھیڑ ہے اور اب انتخابی ریلیوں کا موسم بھی بننے لگا ہے۔ یہ سب اسی یقین کے ساتھ ہورہا ہے کہ 100کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگ گئی ہے۔ لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ان میں سے صرف 36کروڑ لوگ یعنی ٹیکے لگوانے کی اہل آبادی کا صرف30 فیصد حصہ پوری طرح ویکسینیٹ ہوا ہے۔ پہلا ٹیکہ لگوا چکے لوگوں میں سے تقریباً 12کروڑ لوگ تو ایسے ہیں جو مقررہ تاریخ کے نکل جانے کے بعد بھی دوسرا ٹیکہ لگانے نہیں پہنچے ہیں۔
اس سب کے درمیان ہم نے اپنے بچوں کے لیے اسکول-کالج بھی کھول دیے ہیں۔ میرے بچے بھی اسکول جارہے ہیں، آپ کے بھی جا ہی رہے ہوں گے۔ بالغوں نے تو پھر بھی ٹیکے لگوا لیے ہیں لیکن بچوں کے لیے ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ انہیں ٹیکے کیسے لگیں گے، کب لگیں گے اس پر زیادہ معلومات اب تک نہیں ہے۔ صرف تاریخ پر تاریخ ہی سننے کو مل رہی ہے۔ ایک اور بڑا چیلنج ہے جس پر ہمارے ملک میں زیادہ چرچہ نہیں ہورہی ہے۔ جنوری میں جب ہم نے گاجے باجے کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم شروع کی تو پہلی ترجیح کورونا دور میں اپنی جان پر کھیلنے والے ہیلتھ ورکروں اور پولیس اہلکاروں کو دی۔ انہیں کورونا واریئرس کا نام دیا، پہلے-پہل ٹیکے لگانے کا اعزاز بھی دیا۔ یہ مناسب بھی تھا۔ دوسری ڈوز کے وقفہ کو بھی جوڑ لیا جائے تو اب ان کورونا واریئرس کو ملے ٹیکے کا کوچ 6 سے8ماہ پرانہ ہوچکا ہے یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اب کورونا سے سامنا ہو تو وہ کوچ بے اثر ثابت ہو۔ ان کے تحفظ کے لیے ہم کیا کررہے ہیں؟ کیا ان کے لیے کسی بوسٹر ڈوز کی بات چل رہی ہے؟ کیوں کہ اسپتال، آئی سی یو، بیڈ، آکسیجن، دوا سب کے انتظامات تو کیے جاسکتے ہیں، راتوں رات نئے ڈاکٹر-نرس نہیں لائے جاسکتے؟
تین ماہ پہلے عالمی صحت تنظیم کی چیف سائنسداں ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کورونا وبا اینڈیمک فیز میں داخل ہوسکتی ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں انفیکشن کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن اتنا مہلک بھی نہیں رہتا اور ہمیں اس کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے۔ جیسے سوائن فلو، جو اب اتنا خطرناک نہیں سمجھا جاتا جتنا 10سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ ویسے بھی وبائیں ایک بار آجائیں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ صرف چیچک ہی اس سے مستثنیٰ ہے، ورنہ خسرہ، جذام، ٹی بی، پلیگ یا حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے ایبولا وائرس، مارس، سارس جیسی وبائیں مقامی بیماریوں کی شکل میں دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں موجود رہتی ہیں۔ لیکن کورونا تو ابھی بھی نہ صرف اپنی شکل تبدیل کررہا ہے بلکہ شکلیں بدل بدل کر دنیا کے لیے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے سر سے خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ملک میں جس طرح کورونا کے معاملات میں اضافہ ہورہاہے، اسے دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم جلد نہیں سنبھلے تو مارچ اپریل والے حالات دوبارہ واپس بھی آسکتے ہیں۔ ملک میں روزانہ کے نئے معاملات کی تعداد 10ہزار کو پار کرچکی ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کیرالہ کے ساتھ ہی مہاراشٹر، تمل ناڈو اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں حالات پھر بگڑ رہے ہیں۔ موت کے اعداد و شمار بھی روزانہ تقریباً 500کے آس پاس ہیں۔ ایسے میں سمجھداری اسی بات میں ہے کہ ہم بھی احتیاط برتیں، آگے آکر ٹیکہ لگوائیں، ٹیکے لگوا لیے ہیں تو کورونا پروٹوکول پر پوری ایمانداری سے عمل کریں۔ یہ مان کر چلیں کہ حالات ابھی معمول پر نہیں آئے ہیں، اس لیے زندگی میں کچھ معمول سے ہٹ کر بھی کرنا پڑے تو اس تبدیلی کو آسانی سے قبول کریں کیوں کہ جب ہم میں سے ہر ایک اسے ذمہ داری سمجھے گا، تبھی ہم سب کی زندگی بھی معمول پر آسکے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS