پروفیسر اخترالواسع
جنگ خود ہی ایک سنگین مسئلہ ہے، اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیںہو سکتی مگر اس کے باوجود جنگیں ہوتی رہی ہیں، جنگوں سے مسئلوں کے حل کی تلاش کی جاتی رہی ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ بھی بظاہر اسی تلاش کی وجہ نظر آتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جو متنازع معاملات تھے، وہ مذاکرات کی میز پر حل نہیں ہو سکتے تھے، اس کے لیے جنگ ہی ضروری تھی مگر مذاکرات پر جنگ کو ترجیح دینا باعث حیرت ہی نہیں، المناک بھی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ میں انسانی جال و مال کا جو ضیاں ہو رہا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس ضیاں کو روکا بھی جا سکتا تھا مگر حد تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد بھی اسے روکنے کی زیادہ سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں ترکی کا رول ضرور قابل تعریف ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جنگ کے شعلوں پر مفاد کی روٹی سینکنے کے بجائے امن بحال کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ وہ اگر چاہتے تو اپنے ڈرونز کے کاروبار کو چمکا سکتے تھے مگر اردگان جانتے ہیں کہ جنگ کی آگ پھیلتی ہے تو پھر پھیلتی چلی جاتی ہے، اس کا نظارہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں دنیا دیکھ بھی چکی ہے۔ پہلی عالمی جنگ ایک واقعے سے ہی شروع ہوئی تھی ، چنانچہ جنگ جتنی جلدی ختم ہو جائے، بہتر ہے اور اگر جنگ ختم نہیں ہو رہی ہے تو اس کے دائرے کو محدود رکھنا ہی انسانوں کے مفاد میں ہے اور یہی کام کرنے کی کوشش ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کی ہے۔ اسی لیے روس اور یوکرین کے درمیان اجناس کی سپلائی پر مصالحت ہو سکی۔
ایسی صورت میں جبکہ امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادیوں کی توجہ روس کا ناطقہ بند کرنے پر رہی ہے، ترک صدر اردگان کا روس اور یوکرین کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کرنا غیر معمولی ہے۔ یہ ان کی کوششوں سے ہوئے روس اور یوکرین کے درمیان معاہدے سے ہی ممکن ہوا ہے کہ یکم اگست، 2022 کو یوکرین کے شہر اودیسہ کی بندرگاہ سے 26,000 ٹن مکئی لے کر ایک جہاز، رزونی، لبنان کے لیے روانہ ہوا۔ اس سے دو باتوں کی امید کی جا سکتی ہے۔ پہلی یہ کہ یوکرین کے گوداموں میں بند لاکھوں ٹن اناج برباد نہیں ہوں گے اور دوسری بات یہ کہ جنگ کی وجہ سے اناج کی سپلائی چین میں پیدا ہونے والی رکاوٹ دور کی جا سکے گی۔
دراصل اناج کی سپلائی کے سلسلے میں ترکی کی ثالثی میں روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والا معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ کو ختم کرانے کی اگر سنجیدہ کوشش ابھی بھی کی جائے تو امید افزا نتائج سامنے آسکتے ہیں لیکن یوکرین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ امریکہ اور یوروپی ممالک اس کی تائید روس کو دبانے کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ اس سے ہمدردی کا اظہار ہی اس لیے کر رہے ہیں کہ روس اور چین کے دبدبے کو کم کرسکیں۔ جو امریکہ، روس کے عزم کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اسی امریکہ نے چین پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا اور اب خبر یہ ہے کہ ایک اور امریکی وفد نے تائیوان کا دورہ کیا ہے۔ ظاہرہے، یہچین کو مشتعل کرنے والی کارروائی ہے اور اگر وہ واقعی مشتعل ہو گیا تو پھر اس خطے کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ دنیا کو ایک اور جنگ کے اثرات سے نمٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا مگر امن عالم اور بالخصوص اس خطے کے امن کی خاطر روس اور چین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے حالات بدل چکے ہیں، وہ نوآبادیاتی نظام وضع کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں چھوٹے اور کمزور ممالک کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ چین کو بھی اپنی توسیع پسند پالیسی سے باز آنا چاہیے،کیونکہ ایک یوکرین کی جنگ نے ہی دنیا کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ جنگ کہیں بھی ہو، اس کے راست یا بالواسطہ اثرات دیگر ممالک بھی پڑتے ہیں، اس لیے چین کی توسیع پسندی اگر خدانخواستہ تائیوان جنگ کی وجہ بن جاتی ہے تو یہ جنگ دنیا کے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔ جنگ ویسے بھی کبھی انسانوں کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوئی ہے۔اسی لیے ہمیشہ جنگ سے بچنے کو ہی نیک فال مانا جاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ کی ہولناکیوں کو سمجھنے کے لیے تاریخ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
گزشتہ دو دہائی میں افغان جنگ اور عراق جنگ سے ہونے والی تباہی دنیا دیکھ چکی ہے اور یوکرین جنگ تو ابھی جاری ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ المناک ہے، کیونکہ دیگر جنگوں کی طرح اس جنگ میں بھی انسانی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے، آباد شہر کھنڈروں میں تبدیل ہو رہے ہیں، بازار ویران اور تباہ ہو گئے ہیں، لہلہاتے کھیت اجڑ گئے ہیں۔ یوکرین جنگ تشویشناک ہے، کیونکہ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہے اور یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے اس کے لیڈران ایک سے زیادہ بار یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ روس کوئی عام ملک نہیں ہے، وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ ایسی صورت میں اس اندیشے کا پیدا ہونا فطری ہے کہ جنگ کے کسی موڑ پر روس ایٹم بم کا استعمال نہ کر ڈالے اور یہ بات کہیں تیسری عالمی جنگ کے لیے جواز نہ پیدا کر دے، اس لیے جب تک یوکرین جنگ جاری ہے، دنیا کے ہر ذوی ہوش شخص کو یہ خدشہ رہے گا کہ اس جنگ کا دائرہ کہیں وسیع نہ ہوجائے اور عالمی برادری کو پھر سے وہ سب نہ دیکھنا پڑے جو اس سے پہلے دو بار دیکھ چکی ہے۔ پہلی بار 1914 سے 1918تک اور دوسری بار 1939 سے 1945تک۔ کون ایسا انسان ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاسالی کی تباہی کو بھلا دیا ہوگا؟ جس نے یہ نہیں بھلایا کہ دو عالمی جنگوں میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں، وہ یہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی اور جنگ ہو۔ جب تک یوکرین کی جنگ جاری رہے گی، وہ تشویش میں مبتلا رہے گا۔
امریکہ سپرپاور ہے اور اسے اس حیثیت سے دنیا میں امن بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے اسے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ روس اور چین کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ چین کو اپنی توسیع پسندی چھوڑ دینی چاہیے، کیونکہ اس سے خود اس کے لیے مسئلے پیدا ہوں گے اور یہ بھی طے ہے کہ کوئی ملک مسئلوں کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا۔ یوکرین کو بھی حالات کی نزاکت کوسمجھنا چاہیے۔ روس سے اسے مصالحت کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ترکی کو مزید رول ادا کرنا چاہیے۔ اسے ایسا اس لیے بھی کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے صدر رجب طیب اردگان اس کے اہل ہیں اور وہ جنگ روکنے کے تئیں مخلص بھی ہیں۔ جنگ ختم کرنے کے لیے ترکی کے ساتھ ہندوستان بھی کلیدی رول ادا کر سکتا ہے، کیونکہ اس نے کسی بھی فریق کی جانبدارانہ حمایت نہیں کی ہے۔ اور ہندوستان کو ترکی کے ساتھ مل کر قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے جس سے دنیا میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔n
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)
[email protected]