ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس ان دنوں اندرونی خلفشار کے تعلق سے کافی چرچا میں ہے۔ ایک مخالفت تو حکومت کے خلاف ہے جو اس کے اہم اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے جمہوریت کا فطری عمل ہے۔ لیکن کانگریس کی جو مخالفت زیادہ سرخیاں بٹور رہی ہے، وہ اس کا اندرونی بحران ہے جو سب سے پرانی سیاسی پارٹی کے وجود کو ہی چیلنج دیتا نظر آرہا ہے۔ ڈھائی سال سے بغیر کل وقتی صدر والی پارٹی ایسی بے سمتی کا شکار ہے جس میں بزرگ لیڈر حاشیہ پر ڈالے جارہے ہیں اور نوجوان سیاسی مستقبل کی تلاش میں پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں۔ نتیجتاً کانگریس کی تنظیم بکھر رہی ہے اور عوامی مقبولیت کا دائرہ مسلسل سمٹتا جارہا ہے۔
آج کانگریس اس حالت میں پہنچی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ دبی زبان میں یہ سوال کانگریس میں کافی وقت سے پوچھا جارہا ہے۔ اب جب پانی سر سے گزرتا نظر آرہا ہے تو مخالفت کی آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔ جی-23گروپ سے لے کر نٹورسنگھ جیسے صاف ستھرے کردار والے کانگریسی اب کھل کر سامنے آرہے ہیں، جس سے یہ بات صاف ہورہی ہے کہ مرکزی قیادت کے تعلق سے بڑے لیڈروں میں بھی شک و شبہات کی صورت حال ہے۔ کئی مشکل مواقع پر پارٹی کی حکمت عملی بنانے والے کپل سبل جیسے لیڈر اگر یہ کہنے لگیں کہ پتا ہی نہیں چل رہا ہے کہ پارٹی کے فیصلے کون لے رہا ہے، تو حالات سمجھے جاسکتے ہیں۔ ایسی نوبت تب آتی ہے، جب قیادت اپنے لیڈروں سے دور ہوجاتی ہے اور اپنے بھی اسے کمزور ماننے لگتے ہیں۔
اس اتھل پتھل کی فوری وجہ بنے پنجاب میں آخر کیا ہوا؟ کیپٹن امریندر سنگھ، نوجوت سنگھ سدھو، ہریش راوت، سنیل جاکھڑ، ہر لیڈر کی اپنی الگ رائے تھی اور کوئی کسی کی سننے کے لیے تیار نہیں تھا، مرکزی قیادت کی بھی نہیں۔ نتیجہ کیا ہوا؟ اچھی خاصی چل رہی حکومت کے سامنے سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ الیکشن بعد کی تو چھوڑئیے، الیکشن تک بھی وہ ٹک پائے گی یا نہیں؟ پنجاب ہی کیوں، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی کانگریس کی حکومتیں اختلافات کی ایسی دراڑیں پڑی ہوئی دیواروں پر ٹکی نظر آرہی ہیں جو کسی بھی وقت منہدم ہوسکتی ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سوا سو سال سے بھی زیادہ پرانی اور تجربہ کار کانگریس اپنے ہی لیڈروں کو نہیں پرکھ پارہی ہے۔ سیناپتی کی کمی کے ساتھ ساتھ اس میں پارٹی میں چل رہی اولڈ بنام ینگ کی جنگ کا بھی ہاتھ سمجھا جارہا ہے۔ اس بات کی چرچا زوروں پر ہے کہ دوبارہ پارٹی کا صدر بننے سے پہلے راہل گاندھی پارٹی پر پورا کنٹرول چاہتے ہیں، جس میں سینئر لیڈروں کی دخل اندازی نہ ہو۔ 2018میں جب کانگریس نے تین ریاستیں فتح کی تھیں، تب راہل مدھیہ پردیش میں جیوتی رادتیہ سندھیا اور راجستھان میں سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے، لیکن بزرگ لابی کے دباؤ کے آگے انہیں جھکنا پڑا اور کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کے نام پر انہیں راضی ہونا پڑا۔ آگے چل کر ان دونوں لیڈروں نے اپنی اپنی ریاستوں میں جس طرح سندھیا اور پائلٹ کو کنارے لگایا وہ اب تاریخ بن چکی ہے۔ سندھیا پارٹی چھوڑ کرچکے ہیں اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت بھی جاچکی ہے، وہیں پائلٹ اب تک اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ تنظیم کے بزرگ لیڈروں کو چھوڑ بھی دیا جائے تو اقتدار پر قابض رہے کیپٹن امریندرسنگھ اور اشوک گہلوت جیسے لیڈر مسلسل راہل اور پرینکا کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ امریندر سنگھ نے تو پارٹی میں رہتے ہوئے ہی راہل-پرینکا کو ناتجربہ کار تک کہہ دیا تھا۔
بہرحال کانگریس کے اندرخانہ ہی نہیں، باہر بھی اب یہ بات پانی کی طرح صاف ہوچکی ہے کہ صدر کے عہدہ سے راہل گاندھی کے استعفیٰ کی وجہ پارٹی کی بزرگ لابی ہی تھی اور راہل اب دوبارہ اس غلطی کو دوہرانہ نہیں چاہتے۔ مہاراشٹر کی گٹھ بندھن سرکار میں ساتھی شیوسینا نے تو اس تنازع کو نیا اینگل دے دیا ہے۔ شیوسینا کے مطابق راہل گاندھی تو کانگریس کے قلعہ کی مرمت کرنا چاہتے ہیں اور قلعہ کی سیلن اور گڑھوں کو بھرنا چاہتے ہیں لیکن پرانے لوگوں نے انہیں روکنے اور کانگریس کو ڈبانے کے لیے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ حالاں کہ شیوسینا کو بھی لگتا ہے کہ جس طرح بغیر سر کے جسم کا کوئی فائدہ نہیں، اسی طرح بغیر صدر کے کانگریس کی حالت بھی نہیں سدھرے گی۔
اکیلے نوجوانوں پر داؤ لگانے سے کیا کانگریس بازی پلٹنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ شاید نہیں۔ کانگریس کو اپنی کمزور تنظیم اور الیکشن جیتنے والی سوشل انجینئرنگ پر بھی غور کرنا ہوگا۔ پنجاب میں دلت وزیراعلیٰ کی تاجپوشی شاید ایسی ہی ایک شروعات ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سرپرستی ختم ہونے کے بعد کانگریس پارٹی کو درست کرنے کا عمل بھی شروع ہوجائے گا، جس میں سچن پائلٹ، کے سی وینوگوپال، بی بی سرینواس جیسے نوجوان لیڈروں کا قد اور ذمہ داری بڑھائی جائے گی۔ سچن پائلٹ کو گوجر اکثریت والے مغربی یوپی کی ذمہ داری دے کر پرینکا گاندھی کو دوبارہ مرکزی سیاست میں سرگرم کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ واقعات کے بعد لگتا ہے کہ کانگریس اس معاملہ میں کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی تیاری میں ہے۔ پنجاب میں کیپٹن امریندر سنگھ کی رخصتی اور کنہیا کمار اور جگنیش میوانی کی اینٹری بزرگ لیڈروں کو صاف اشارہ ہے کہ اب پارٹی میںان کی دال زیادہ دن تک نہیں گلنے والی۔ 28ستمبر کو جب یہ دونوں لیڈر کانگریس ہیڈکوارٹر میں سیاست کے اس ’بڑے جہاز‘ پر سوار ہورہے تھے، تب کانگریس کے آفیشیل ٹوئیٹر ہینڈل کا ایک پیغام مستقبل کی حکمت عملی کی جھلک دکھا رہا تھا۔ یہ پیغام تھا ’جب نوجوان متحد ہوکر اٹھتا ہے، تو تاناشاہی بکھر جاتی ہے۔‘
اس پیغام سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ کانگریس اب نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے جارہی ہے، لیکن اس حکمت عملی کا روڈمیپ کیا ہوگا؟ اکیلے نوجوانوں پر داؤ لگانے سے کیا کانگریس بازی پلٹنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ شاید نہیں۔ کانگریس کو اپنی کمزور تنظیم اور الیکشن جیتنے والی سوشل انجینئرنگ پر بھی غور کرنا ہوگا۔ پنجاب میں دلت وزیراعلیٰ کی تاجپوشی شاید ایسی ہی ایک شروعات ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سرپرستی ختم ہونے کے بعد کانگریس پارٹی کو درست کرنے کا عمل بھی شروع ہوجائے گا، جس میں سچن پائلٹ، کے سی وینوگوپال، بی بی سرینواس جیسے نوجوان لیڈروں کا قد اور ذمہ داری بڑھائی جائے گی۔ سچن پائلٹ کو گوجر اکثریت والے مغربی یوپی کی ذمہ داری دے کر پرینکا گاندھی کو دوبارہ مرکزی سیاست میں سرگرم کیا جاسکتا ہے۔ ان سب کے درمیان انتخابی حکمت عملی بنانے والے پرشانت کشور پردے کے پیچھے سے نوجوانوں کو جوڑنے والے اسی رول میں نظر آسکتے ہیں، جیسے احمد پٹیل کبھی کانگریس کے بزرگوں کو سادھے رکھتے تھے۔
بہرحال سطح پر نظر آرہے اختلافات ہوں یا اندر ہی اندر پارٹی میں بڑی تبدیلی کی تیاری، اتنا تو صاف ہے کہ کانگریس اب بڑی تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اختلافات، ٹکراؤ اور مایوسی کے ماحول میں عام ورکر سے لے کر پارٹی کے وفادار لیڈر قیادت سے امید لگارہے ہیں۔ ایسے حالات میں سی ڈبلیو سی کی میٹنگ کانگریس کے لیے امرت منتھن کا کام کرسکتی ہے۔ لیکن تب بھی یہ سوال تو پوچھا ہی جائے گا کہ اس منتھن سے نکلنے والے زہر کا گھونٹ کون اپنے گلے اتارے گا؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہوجاتا ہے، کیوں کہ اسی زہر کا استعمال کانگریس کو نئی سیاسی لائف لائن دینے کا کام کرے گا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)