بدلتی سیاست، بدلتا انداز

0

ایک وقت وہ تھا جب لیڈر ایشوز پر باتیں کرنے کے لیے، رائے جاننے کے لیے، بیدار کرنے کے لیے انتخابی موسموں میں ہی نہیں، عام دنوں میں بھی لوگوں کے درمیان جایا کرتے تھے۔ وہ سیاست کا مطلب عام لوگوں سے سروکار سمجھتے تھے۔ اس وقت ’مصلحت پسند‘ سیاست کم تھی اور ’سہولت کی سیاست‘ تو برائے نام تھی۔ اپوزیشن لیڈر حکومت کے قابل اعتراض اقدام کی مذمت کرتے تھے مگر الزام عائد کرنے میں جلد بازی نہیں کرتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، سیاست کا روپ-رنگ بدلتا جا رہا ہے، سیاست کرنے کا انداز بدلتا جا رہا ہے، یہ بات واضح طور پر نظر آنے لگی ہے کہ بیشتر لیڈران ’مصلحت کی سیاست‘ کچھ زیادہ ہی کرنے لگے ہیں، سوشل میڈیا آجانے سے ’سہولت کی سیاست‘ اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ کچھ لیڈروں کو اگر سوشل میڈیا کا لیڈر کہہ دیا جائے تو اس پر انہیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایک طرف ایک بڑے واقعے پر توجہ نہیں دی جاتی اور دوسری طرف ایک واقعے کو پوری ریاست کے نظم و نسق سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں لنچنگ کی وارداتیں ہوئیں، ان کے حق میں کتنے لیڈروں نے آوازیں اٹھائیں؟ ان کے اہل خانہ سے ملنے کتنے لیڈران گئے؟ نہ جانے کی وجہ کیا رہی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے مگر سیکولرزم کے نام پر سیاست کرنے والے لیڈروں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ انہیں ووٹ سیکولر شبیہ کی وجہ سے ملے؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا خود کو سیکولر کہنے سے ہی کوئی لیڈر سیکولر ہو جائے گا اور خود کو سیکولر نہ کہنے والا دوسرا لیڈر سیکولر نہیں ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ جو پارٹیاں خود کو سیکولر کہتی ہیں، ان کے راج میں لنچنگ کیوں ہوتی ہے اور اگر ہوتی ہے تو ملزمین کو جلد از جلد سزا دلانے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟ سوال یہ بھی ہے کہ سیکولر لیڈروں کی حکومت میں بھیانک فسادات کیسے ہو جاتے ہیں؟ وطن عزیز ہندوستان میں دنگوں کی تاریخ نئی نہیں ہے مگر مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ جیوتی بسو اور بہار کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو نے یہ ثابت کیا تھا کہ ریاست کا وزیراعلیٰ اگر مستعد ہو تو دنگے نہیں ہوں گے اور اگر ہو جاتے ہیں تو انہیں قابو میں کرنے میں تاخیر نہیں ہوگی مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ایک حکومت میں لنچنگ ہو جاتی ہے، دنگے ہو جاتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کا سربراہ دعویٰ یہ کرتا ہے کہ وہ سیکولر ہے تو ایسے سیکولرزم سے کیا فائدہ، یہ سوچنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ دیکھنے کا وقت آگیا ہے کہ اگر ایک لیڈر کو ہم اچھا نہیں مانتے اور دوسرے کو اچھا مانتے ہیں تو کیا واقعی اس نے انصاف کیا ہے؟ الیکشن میں امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت اور بعد میں حکومت سازی کے وقت آبادیوں کے تناسب کا خیال اس نے کیا ہے؟
اپنے بھلے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی سیاست کرے مگر سیاست سمجھنے کی ضرورت ضرور ہے تبھی یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ اترپردیش ایک بڑی ریاست ہے۔ وہاں کی آبادی 20.42 کروڑ ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی آبادی یوروپ کی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود کسی ایک واقعے کو پورے اترپردیش کے نظم و نسق سے جوڑنے کی کوشش کی جا ر ہی ہے تو کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا پہلے واقعات نہیں ہوئے اور اگر ہوئے تو کتنے لیڈران متاثرین کی فیملی کی مدد کے لیے پہنچے؟ ’مصلحت کی سیاست‘ کرنے والے لیڈران کیا آج اسی لیے متحرک نہیں ہو گئے ہیں کہ اسمبلی انتخابات میں زیادہ دن نہیں بچے اور انہیں ایسا لگنے لگا ہے کہ جن لوگوں کا ووٹ ’سیکولرزم‘ یا اسی طرح کے کسی اور نام پر مل جائے گا، منانے کی انہیں ضرورت نہیں، منانے کی ضرورت انہیں ہے جن کے ووٹ ملنے کا امکان انہیں نہیں رہتا مگر سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ لیڈران ہی نہیں بدلے ہیں، ان کی سیاست کا انداز ہی نہیں بدلا ہے، لوگ بھی بدل رہے ہیں، ان کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔ وہ مختلف واقعات کو ملاکر دیکھنے لگے ہیں کہ ایک طرح کے واقعے پر کسی لیڈر کا ردعمل ایک کمیونٹی کے لیے کیا تھا اور دوسری کمیونٹی کے لیے کیا ہے۔ کون لیڈر ’مصلحت کی سیاست‘ کر رہا ہے، کون لیڈر ’سہولت کی سیاست‘ کر رہا ہے اور اسے عام لوگوں سے کتنا سروکار ہے، چنانچہ 2022 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے بھلے ہی ابھی سے ماحول بنانے کی ابتدا کر دی گئی ہو مگر عوام پل پل بدلتی سیاست کے ساتھ بدلتے ہوئے لیڈروں کو پسند نہیں کرتے، وہ ایسے لیڈروں کو پسند کرتے ہیں جو مصلحت پسند نہ ہوں، جو سہولت کی سیاست کرنے والے نہ ہوں، جو سیاست کی بہتی دھارا میں بہنے والے نہیں، سیاست کو مثبت رخ پر موڑنے والے ہوں، جو یہ دیکھنے والے ہوں کہ حکومت نے عوام کے لیے کیا کیا اور وہ کیا نہیں کیا جو کیا جانا چاہیے تھا ۔ مطلب یہ کہ کسی لیڈر کا عوام سے بلا تفریق سرورکار ہی سب سے اہم ہے، یہ سمجھنا ہوگا!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS