عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان کا آئینی جمہوری نظام اور صدیوں کے ہندو-مسلم اتحاد سے پیدا ہوئی مشترکہ تہذیب جسے گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا ہے ہمیشہ آر ایس ایس کی آنکھ کی کرکری رہی ہے۔جب ہندوستان کا آئین تیار ہو رہا تھا اور ملک کے بہترین دماغ اس اہم کام میں مصروف عمل تھے تب بھی آر ایس ایس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہمارے رشیوں منیوں کا تیار کردہ آئین منو اسمرتی کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے تو ہمیں کسی نئے آئین کی ضرورت نہیں ہے۔مہاتما گاندھی کی شہادت کے بعد جب آر ایس ایس پر پابندی لگائی گئی اور اس پابندی کو ہٹانے کے لیے اس کے لیڈران ناکیں رگڑ رہے تھے تو اس شرط کے ساتھ یہ پابندی ہٹائی گئی تھی کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے گی اور خود کو تہذیبی اور سماجی سرگرمیوں تک ہی محدود رکھے گی اور آئین ہند پر مکمل اعتماد کرے گی اور اس پر عمل کرے گی۔ دل پر پتھر رکھ کر آر ایس ایس کے لیڈروں نے یہ شرطیں قبول کرلی تھیں لیکن اس کی خلاف ورزی کے راستے بھی تلاش کر لیے تھے، اس میں سب سے اہم تھا اپنی الگ سیاسی پارٹی جن سنگھ کی تشکیل جس نے کاغذات پر آئین ہند سے وفاداری اور اس پر عمل کرنے کا حلف لے کر اپنا رجسٹریشن تو کرا لیا اور خود کو آر ایس ایس سے الگ ایک تنظیم بتایا لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ آر ایس ایس کی ذیلی شاخ تھی اور اسی کی پالیسیوں پر عمل کرتی تھی۔ یہی جن سنگھ 1977-78میں بھارتیہ جنتا پارٹی بنی اور آج دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔یہی نہیں بلاشبہ آر ایس ایس دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے دنیا بھر میں کروڑوں کارکن ہیں جن کا کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتا، کوئی ممبرشپ فارم نہیں ہوتا، کوئی ممبرشپ فیس نہیں ہوتی، بس اگر آپ آر ایس ایس کے نظریات کے حامی ہیں تو آ پ اس کے ممبر ہیں اور آپ کی برین واشنگ کر کے رہی سہی کسر اس کی شاکھاؤں میں جانے اور اس کا لٹریچر پڑھا کر پوری کر دی جائے گی۔آر ایس ایس کا بنیادی نظریہ ہندو مذہب، ہندو تہذیب کی برتری ہے، اسے یہ منظور نہیں کہ ہندوستانی تہذیب مختلف تہذیبوں کا مرکب ہے جس کی نشوونما میں یہاں بسنے والی سبھی تہذیبوں نے اپنے اپنے حساب سے تعاون دیا ہے۔ مختصر یہ کہ آر ایس ایس ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانا چاہتا ہے جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہ تو سکتے ہیں لیکن ان کے کوئی حقوق نہیں ہوں گے، ان کا وجود ہندوؤ ں کے رحم و کرم پر ہوگا۔ظاہر ہے یہ بات ہندوستان کے آئین سے ٹکراتی ہے جو اپنے سبھی شہریوں کو بنا کسی تفریق کے برابر کے حقوق دیتا ہے۔ہندوستانی عوام کی ا کثریت نے بھی آر ایس ایس کے اس فسطائی نظریہ کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اسے منظوری دی لیکن حالات بدلتے رہے اور آج آر ایس ایس کی سیاسی شاخ بی جے پی کی حکومت ہے تو وہ اپنے نظریہ پر بتدریج عمل کر رہی ہے حالانکہ ہمارا آئین ابھی بھی اس کی راہ کا روڑا ہے یہی وجہ ہے کہ آئینی انتظامات اور آئینی اداروں پر وقتاً فوقتاً حملہ ہوتا رہتا ہے۔آج عدلیہ سمیت سبھی آئینی ادارہ بے ریڑھ کے ہو چکے ہیں، وہاں آر ایس ایس نواز افراد کو بٹھا کر ان کی حیثیت راجہ پورس کے ہاتھیوں جیسے بنا دی گئی جو انہی آئینی قدروں کو مسلتے رہتے ہیں جن کی نگہبانی ان کا فرض منصبی ہے۔ عدلیہ کی ریڑھ توڑنے کی کوششیں بھی پوری ڈھٹائی سے جاری ہیں۔جے پور کے اسپیکروں کے اجلاس میں لوک سبھا کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین اور نائب صدر جمہوریہ کی تقریریں آنے والے خطروں کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
آر ایس ایس کے نظریات کے پس منظر میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ انہوں نے جو کہا، اس پر عمل کرنے کے لیے تو آر ایس ایس تقریباً سو سال سے محنت کررہی ہے۔ حیرت تو وہ تھی جب بھاگوت جی نے ہر مندر کے نیچے شیولنگ تلاش کرنے کے رجحان کو غلط بتایا تھا۔ دہلی میں آل انڈیا امام کونسل کے مولانا الیاسی سے ملاقات کرکے خیرسگالی کا پیغام دیا تھا۔ کچھ سبکدوش مسلم شخصیات سے ملاقات کی تھی۔ یہ سب کیوں تھا، اس وقت بھی ان کالموں میں اور دیگر صحافیوں اور دانشوروں نے کہا تھا کہ عالمی سطح پر ہندوستان کے اندرونی معاملات خاص کر مذہبی آزادی کو لے کر جو چہ می گوئیاں چل رہی ہیں، انہیں خاموش کرنے کے لیے بھاگوت جی یہ سب کر رہے ہیں۔ بھاگوت جی کے حالیہ بیان سے کچھ بہت تشویشناک باتیں سامنے آئی ہیں اور اگر سب بیانوں کو جوڑ کر دیکھا جائے اور ملک میں جو ہورہا ہے، اس کو بھی مدنظر رکھا جائے تو ہندوستان میں ایک بہت ہی خطرناک تصویر ابھر رہی ہے۔ بھاگوت جی کا یہ کہنا خالی از علت نہیں کہ ہندوستان میں اس وقت ایک جنگ چل رہی ہے، یہ جنگ اندرونی دشمنوں کے خلاف ہے اور جنگ کے ماحول میں ہندوؤں کا شدت پسند جارح ہوجانا کوئی غلط بات نہیں یعنی ماب لنچنگ، مسجدوں پر حملہ، گھروں پر بلڈوزر چلانا وغیرہ وغیرہ سب کسی نہ کسی طرح جائز ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہندو سماج ایک ہزار سال سے جنگ کر رہا ہے، تاریخ کو محدود سنگھی نظریہ سے دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ تاریخ میں ہونے والی جنگوں کو وہ ہندو-مسلم کی جنگ کی نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ یہ سب جنگیں اقتدار کی جنگیں تھیں، اگر ایسا نہیں تھا تو اکبر کے لیے راجہ مان سنگھ اور مہارانا پرتاپ کے لیے حکیم خان سوری نہ لڑرہے ہوتے۔ شیواجی کو شکست دینے کے لیے اورنگ زیب مرزا راجا جے سنگھ کو نہ بھیجتا اور شیواجی اپنی بحریہ کا کمانڈر ایک مسلمان کو نہ بناتے اور نہ ہی دونوں حکمرانوں کے اعلیٰ افسران اور عہدیداران ہندو مسلمان ہوتے۔ ان لوگوں نے کوئی تفریق نہیں کی جبکہ سنگھی تاریخ داں مسلسل فرقہ وارانہ خطوط کھینچ رہے ہیں اور اب تو اس خرافات نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی ہے جس میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔بھاگوت جی نے یہ نہیں بتایا کہ کن اندرونی دشمنوں سے ہندو سماج بر سرپیکار ہے لیکن دہائیوں پہلے گروگولوالکر بتا گئے تھے کہ یہ اندرونی دشمن کون ہیں۔
بھاگوت جی، آر ایس ایس جس تاریخ اور جس نظریہ کو ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں بھر رہے ہیں، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے، اس کا واحد مقصد ملک کو نفرت اور عدم اعتماد کی آگ میں جھونکنا ہے۔ آپ جیسا اتنی بڑی تنظیم کا سربراہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نفرت، باہمی عدم اعتماد، لاقانونیت اور تشدد کے ذریعہ کسی ملک، کسی سماج کو بنایا نہیں جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس جس ہندوستان کا خواب دیکھ رہی ہے، وہ کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ہندوستان جیسے متنوع ملک میں جو مختلف مذہبوں، تہذیبوں، زبانوں اور علاقوں کا حسین گلدستہ ہے، اس پر کوئی ایک مذہب، زبان، تہذیب یا علاقائی بالادستی کی کوشش اس کو تباہ کر دے گی۔ باہمی عدم اعتماد کی بہت بڑی قیمت ہم1947میں ادا کر چکے ہیں جب مادر وطن کے سینے پر تقسیم کا آرا چلا دیا گیا تھا، اب جو ہندوستان ہمیں ملا ہے، اسے اسی شکل میں بچائے رکھنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے اور ظاہر ہے کہ جو بڑا ہے، اس کی ذمہ داری بھی فطری طور پر بڑی ہوگی۔ آپ نے کہا ہے کہ مسلمان یہاں رہیں، اسلام کو یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن مسلمان اپنے ذہنوں سے یہ نکال دیں کہ وہ یہاں کبھی حکمران تھے اور پھر حکمراں ہو سکتے ہیں تو اس سلسلہ میں عرض کرنا ہے کہ یہاں800سال مسلمان حکمران رہے، یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گا لیکن ہندوستانی مسلمان نے کبھی نہ پدرم سلطان بود کی ذہنیت کا مظاہرہ کیا، نہ آئندہ کرے گا، تاریخ اس کے لیے تاریخ ہی ہے اور کچھ نہیں، وہ آر ایس ایس کی طرح تاریخ کو دوہرانے یا تاریخ کو مٹانے کی کوشش نہیں کرتا، ماضی میں جو ہو گیا ہو گیا، تاریخ کو پلٹنا، تاریخ کو مسخ کرنا، تاریخی واقعات کا آج کے ماحول میں سیاسی فائدہ اٹھانا،یہ ساری خرافات، یہ ذہنیت، یہ سوچ آرایس ایس کو ہی مبارک ہو۔ مسلمان اس سے بہت اوپر کی سوچتا ہے ’’خاک وطن کا ہم کو ہر ذ رہ دیوتا ہے‘‘۔مسلمان پھر سے حکمران ہونے کی بات سوچنا تو در کنار، اس نے آزادی کے بعد سے کسی مسلمان کو اپنا لیڈر تک نہیں تسلیم کیا۔ جوا ہر لعل نہرو سے لے کر آج راہل گاندھی اور دیگر علاقائی لیڈروں پر ہی وہ اعتماد کرتا رہا ہے۔ اس نے اٹل جی پر بھی اعتماد کیا تھا، وہ آج بھی بی جے پی کے لیڈروں پر اعتماد کر سکتا ہے لیکن جب چوبیسوں گھنٹے اس میں احساس بیگانگی پیدا کرنے کی مہم چل رہی ہو، اسے دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہو تو وہ آج کی بی جے پی آر ایس ایس کی قیادت پر اعتماد کیسے کرسکتا ہے؟ تاریخی شہروں کے نام بدل کر اگر کسی کے احساس برتری کو سکون ملتا ہے تو یہ اس کو مبارک ہو، عام مسلمان کی صحت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں عالمی برادری میں ملک کی ایسی حرکتوں سے جو بدنامی ہورہی ہے، اس کی فکر ضرور ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ دنیا کے سامنے ہندوستان کی جو تصویر بن رہی ہے، جس طرح عالمی رینکنگ کے ہر پیمانہ پر ہندوستان نیچے گرتا جا رہا ہے خواہ وہ مذہبی آزادی کا پیمانہ ہو، خواہ پریس کی آزادی کا پیمانہ ہو، خواہ جمہوری نظام کاپیمانہ ہو اور چاہے عالمی صحت اور بھکمری کا پیمانہ ہو، آپ ایمانداری سے پتہ کیجیے،ہندوستان کہاں کھڑا ہے؟ ہندوستان کی معیشت کی تباہی ہندوستان کے سماج کے بکھراؤ اور ہندوستان کی غیرمحفوظ سرحدوں خاص کر چین کی دراندازی کا حقیقی جائزہ لیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ دس برسوں میں ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور اگر اس کے لیے تدارکی اقدام نہ کیے گئے اور ملک میں ایک مفروضی جنگ کا ماحول بنائے رکھا گیا جس کا آپ نے اپنے انٹر ویو میں ذکر کیا ہے تو اس کا منطقی انجام کیا ہوگا، یہ کوئی معمولی فہم کا آدمی بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
بھاگوت جی ہم آپ کو انقلابی شاعر آدم گونڈوی کا یہ شعر نذر کرتے ہوے اس پر عمل کی درخواست کرتے ہیں:
چھیڑئیے اک جنگ، مل جل کر غریبی کے خلاف
دوست میرے مذہبی نغمات کو مت چھیڑئیے
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]