ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
جمہوریت میں ووٹ فیصلہ کن قوت ہوتی ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے حکومت بنائی بھی جاتی ہے اور گرائی بھی جاتی ہے۔ ویسے تو ہر الیکشن اہم ہوتا ہے، لیکن 2024کا الیکشن کچھ خاص ہے۔ بی جے پی اس بار اس ارادے کے ساتھ اتری ہے کہ اسے چار سو سے زیادہ سیٹیں مل جائیں تو اس کے لیے ملک کے موجودہ دستور اور قانون کو بدلنا آسان ہوجائے گا اور اپنے خوابوں کا ہندوستان بنانے کی راہ ہموار ہوجائے گی جو یقینا ملک کو تباہ و برباد کردینے والی راہ ہے۔ ہٹلر نے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کے بارے میں اس کا احساس تھا کہ یہ سیاست جرمنی کو مضبوط کرے گی اور اس کو ایک بڑی عالمی قوت بنادے گی، لیکن جو ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا اور دورِ جدید کے اس فرعون کا جو عبرت ناک انجام ہوا اور جرمنی کو جو شکست، ذلت اور ہزیمت اٹھانی پڑی وہ عصرِ حاضر کی تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔
بھارت ان حالات سے نہ گزرے یہ ہر بھارتیہ کو سوچنا ہے اور اپنی ووٹ کی طاقت کا بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے۔ بھارت میں الیکشن چار بنیادوں پر ہوتا ہے پہلا مذہب ہے، بھارت میں کم و بیش دو سو سالوں سے ہندو مسلم کشمکش چل رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ کنڈی ڈیٹ کی علمی، اخلاقی اور دیگر خوبیوں کو دیکھنے کے بجائے اس کا مذہب دیکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ووٹ کرتے ہیں۔ یہ شدت پسندی ہندوؤںمیں زیادہ ہے۔ مسلمان امیدوارچاہے کتنا اچھا ہو مگر ہندو اکثریت اس کو ووٹ نہیں کرتی اور اپنے درمیان کے گھٹیا بلکہ جرائم پیشہ شخص کو جتا کر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھیج دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ چھوٹا باہوبلی بڑا باہو بلی بن جاتا ہے اور اپنے سیاسی رسوخ کا فائدہ اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے ملک کی دولت اور کمزوروں کی عزت لوٹنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد علاقے میں اس کی دہشت پھیل جاتی ہے اور لوگ ڈر سے اس کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ مسلمان بھی مذہب دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں ،لیکن ان کے پاس چوائس بہت محدود ہوتے ہیں اس لیے وہ اتنے شدت پسند نہیں ہوتے ہیں اور غیر مسلم امیدواروں کو بھر بھر کے ووٹ دیتے ہیں۔ اس طرح اس وقت بھارت میں ووٹنگ ون وے ٹریفک ہے۔ مسلمان غیر مسلم امیدواروں کے ووٹ دیتے ہیں، لیکن عموماً غیر مسلم مسلم امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے۔
دوسری چیز ذات ہے۔ ہندوستان میں ہندوؤں کے یہاں ذات برادری کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ جب دو یا دو سے زیادہ ہندو امیدوار کے درمیان مقابلہ ہو تو ہر ذات کے لوگ اپنی ذات کے امیدوار کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ذات اپنی نمائندگی اور سیاسی طاقت بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت میں حکومت نظریاتی بنیاد پر نہیں بنتی اور بگڑتی ہے بلکہ یہ Coalition of Caste کی بنیاد پر بنتی ہے۔ جس نے جتنی ذاتوں کے لوگوں کو اپنی طرف ملالیا اس کی جیت پکی ہے اس کو سیاسی اصطلاح میں Social Engineering کہتے ہیں۔
تیسرا فیکٹرعلاقائیت ہے۔ بھارت ریاستوں کا وفاق ہے۔ ہر ریاست کی اپنی الگ خصوصیت ہے، اس لیے علاقائی Degnity & Aspiration وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ریجنل پارٹی اور لیڈر شپ کا عروج ہوا ہے۔ ایک پارٹی اور لیڈر ایک ریاست میں بہت مقبول ہے جبکہ دوسری ریاست میں کوئی اس کو جانتا بھی نہیں ہے۔
لیکن کسی بھی الیکشن میں سب سے فیصلہ کن قوت پیسہ ہے۔ جس پارٹی اور کنڈی ڈیٹ کے پاس پیسہ زیادہ ہے اس کے کامیاب ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ کیونکہ مذہب، ذات، علاقائیت کے بعد پیسہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی غربت اور جہالت ہے اور عوام کو حکومت اور سیاست پر اعتماد نہیں ہے۔ برسہا برس بیت جاتے ہیں اوران کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس لیے لوگ ہزار پانچ سو روپے میں آسانی سے اپنا ووٹ بیچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اس طرح کروڑوں روپے خرچ کرکے لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں اور اربوں کماتے ہیں۔ موجودہ حالات میں سیاست سے اچھی کوئی تجارت نہیں ہے جس میں دولت، عزت، طاقت، شہرت اور غلط صحیح کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔
بہرحال یہ ہمارے سیاسی نظام کی کمزوریاں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ووٹ نہ ڈالیں۔ ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہے۔ لہٰذا اپنا ووٹ غفلت میں ضائع نہ کیجیے۔ ووٹ کے دن سب سے پہلا کام اور سب سے اہم کام ہے ووٹ ڈالنا۔ ووٹ بہت سوچ سمجھ کر ڈالیے۔ اس کنڈی ڈیٹ کی حمایت کیجئے جو ملک میں فسطائی طاقت کو ہراسکتا ہے۔ بالکل جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت سمجھ داری کے ساتھ سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیے۔ 2024 کا الیکشن اس ملک کی دشا اور دَشا طے کرنے والا الیکشن ہے جس میں مسلمانوں کو فیصلہ کن رول ادا کرنا ہے۔
abuzarkamaluddin.com