بنگلہ دیش میں تشدد

0

پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ چٹاگانگ کے کومیلا میں ایک درگا پوجا پنڈال میں قرآن شریف کی مبینہ بے حرمتی کے بعد بھڑک اٹھنے والے تشدد نے پورے بنگلہ دیش میں فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ کردیا ہے۔اب تک نصف درجن سے زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔ شرارتی عناصر ہندو اقلیتوں کے مکان میں آگ زنی اور توڑ پھوڑکررہے ہیں حتیٰ کہ ہندو عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی خبریں آرہی ہیں۔ دارالحکومت ڈھاکہ سے تقریباً 157کلومیٹر دور فینی میں ہندومندروں اور دکانوں میں شدت پسندوں نے جم کر ہنگامہ کیا اور کئی دکانوں اورمندروں میںتوڑپھوڑ کی۔تشدد کا آغاز ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے وائرل ہونے سے ہوا جس میں بتایاگیا تھا کہ ایک درگاپوجا پنڈا ل میں آسمانی صحیفہ قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی تھی۔
بنگلہ دیش کی تقریباً ساڑھے 16کروڑ آبادی کا تقریباً 8 8.5 فیصد ہندو ہیں۔ کومیلا اور اطراف کے اضلاع میں ہندو اقلیتوں کی بھاری تعداد آ باد ہے اور وہاں ہندو اور مسلمان کئی دہائیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔درگا پوجا کے دوران مسلمانوں کا ایک طبقہ پوجا پنڈالوں کا دورہ بھی کرتا ہے، اس وجہ سے یہاں پوجا پنڈالوں میں رات کے وقت کوئی پہرہ نہیں رہتا ہے۔ پوجا منتظمین کا کہنا ہے کہ قرآن شریف کی مبینہ بے حرمتی کا الزام بے بنیاد ہے۔ منتظمین کے مطابق کسی نے جان بوجھ کر پوجا پنڈال میں قرآن شریف رکھا ، اس کے بعد اس کی تصویر لی گئی اور فیس بک پر پوسٹ کرکے قرآن پاک کی بے حرمتی کی خبر پھیلائی گئی۔ یہ سب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی کو بھڑکانے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔یہ بات قابل فہم بھی ہے اوراس واقعہ میں سازش ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
فرقہ وارنہ تشدد دہلی میں ہو یاڈھاکہ میں وہ ہر جگہ قابل مذمت ہے اور اسے کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں لوگوں کو مذہب کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایاجانا اور اس ملک کی اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنااس ملک کی حکومت کیلئے انتہائی شرم ناک بات ہوتی ہے۔لیکن جس طرح سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خاطیوں کو سزایاب کرانے کا اعلان کیا ہے، وہ اطمینان بخش ضرور کہاجاسکتا ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ ہندو مندروں اور درگا پوجا کے مقامات پر حملوں میں ملوث کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجرم کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ مجرم جلد پکڑے جائیں گے اور انہیں سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی شیخ حسینہ نے ہندوستان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں بھی ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جو ہمارے ملک کو متاثر کرے۔ اگر ہندوستان میں کچھ ہوتا ہے تو ہمارے ہندو متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوستان کو بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ ہندوستان میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے مشورہ پر کان بھی دھرنے والی ہے کیوں کہ بنگلہ دیش کے اس واقعہ کے بعد ہندوستان بالخصوص مغربی بنگال میں بی جے پی نے سیاست شروع کردی ہے۔بنگال میں گزشتہ کئی دنوں سے ریاست گیر جلوس اورا حتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔خاص کر بنگلہ دیش سے ملحقہ اضلاع مرشد آباد، مالدہ ،شمالی دیناج پور ، جنوبی دیناج پور، کوچ بہار، شمالی 24پرگنہ ، جنوبی 24 پرگنہ اور ندیامیں بی جے پی کے احتجاج کی لے انتہائی اشتعال انگیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ میڈیا پر بنگلہ دیش کے حوالے سے جعلی ویڈیوز اور پوسٹس کاسیلاب آگیا ہے۔سرحدی اضلاع میں مختلف بنیاد پرست تنظیمیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں۔ بنگال پولیس کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش واقعہ کی آڑ میں شرارتی عناصر ایسا کوئی ویڈیو یہاں وائرل نہ کریں جس سے امن و امان کے حوالے سے مسئلہ پیدا ہو۔بنگال پولیس اس معاملہ میں چوکس ہے اور سرحدی علاقوں میں انٹرنیٹ میڈیا پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔پولیس انتظامیہ کی طرف سے احتیاطی اقدامات کیے گئے ہیںاور عوام کو افواہوں سے دور رہنے کی تلقین کی جارہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ایک اندرونی معاملہ پر، باوجود اس کے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ نے مجرموںکے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کردیا ہے ،ہندوستان اور مغربی بنگال میں بی جے پی یہ ہنگامہ کیوں کررہی ہے؟کیا یہ معاملہ کو مزید بگاڑنے کی کوشش اور مغربی بنگال میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی مہم تو نہیں ہے؟ یہ شبہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگلے30اکتوبر کو مغربی بنگال میں اسمبلی کی4سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں اور یہ چاروں سیٹیں سرحدی اضلاع میں ہیں۔
یہ وقت فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے اور ختم کرنے کا ہے بہتر ہوتا کہ بی جے پی بنگلہ دیش کے معاملے کو ہندوستان میں ایشو بنانے کے بجائے شیخ حسینہ کے مشورہ پر توجہ دیتی۔نیز دونوں ملک اپنی اپنی اقلیتوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرتے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS