عبدالماجد نظامی
ہندوستان جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا امتیاز حاصل ہے اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوری نظام میں جو لچک اور عوام کی مخفی قوت ہے، وہی اسے گزشتہ کئی صدیوں سے دنیا بھر میں زندگی بخشتی رہی ہے اور مستقبل قریب میں بھی جمہوریت کا کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جمہوریت تمام خرابیوں سے پاک ہے یا آئندہ کوئی دوسرا نظام اس کو بدل نہیں سکتا لیکن اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کی دنیا میں جہاں سرحدیں سمٹ گئی ہیں اور انسان ایک گلوبل ولّیج یا عالمی گاؤں کا باشندہ بن چکا ہے جس کا مختلف تہذیبوں، میلانوں اور نقطۂ ہائے نظر سے ہر لمحہ سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ مذاہب و ادیان سے لے کر سیاسی و اقتصادی نظریوں کے درمیان تصادم کا ماحول تیار ہوتا رہتا ہے، ایسی دنیا میں تمام آراء و افکار اور تحریکات و نظریات کو مساوی طریقہ سے پھلنے پھولنے اور پرامن طریقہ سے اپنی بات کہنے اور جائز مطالبوں کو حکومت وقت سے منوانے کا جو ماحول دستوری جمہوریت عطا کرتی ہے، وہ کسی دوسرے نظریہ و نظام میں بظاہر مفقود ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ مختلف نظریات اور میلانوں کے شہریوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور نظریاتی اختلاف کے باوجود مشترک ایجنڈہ پر سب کو جمع کرنے کا بے مثال ہنر رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر زراعت ایک ایسا پیشہ ہے جس سے اٹوٹ رشتہ صرف گاؤں کے کسانوں یا کسی خاص مذہب و آئیڈیالوجی کے ماننے والوں کا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس سے ہر طبقہ کسی نہ کسی شکل میں مربوط ہوتا ہے۔ سرحد کی حفاظت کرنے والا سپاہی ہو یا کارپوریٹ کی چمکتی عمارتوں میں جاب کرنے والے نوجوان یا پھر تعلیمی اداروں میں علم و دانش کا چراغ روشن کرنے والے اساتذہ و طلبا سب کا رشتہ اس سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عوام مخالف زرعی قوانین کے خلاف جب ہندوستان کے کسانوں نے اپنی تحریک چلائی تو اس کے ساتھ تمام طبقوں نے اپنے تعاون کا اظہار کیا۔ سرحد کا سپاہی ہو یا یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس یا پھر گاؤں اور شہر کے عام انسان سب نے کسانوں کی تحریک کو مضبوط بنانے اور ان کے مطالبوں کی حمایت میں اپنی آواز ملانا اپنی دستوری اور جمہوری ذمہ داری سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ سرد و گرم اور طوفانی موسموں کی صعوبتیں جھیلیں، انہیں بدنام کرنے کے لیے زرخرید میڈیا اور کرائے کے بھکتوں کے ذریعہ جو ایک طوفان بدتمیزی برپا گیا اس کو بھی برداشت کیا، خود زرعی قوانین کے خلاف جاری تحریک سے وابستہ لوگوں میں وقتاً فوقتاً اعتماد کی لو جلائی، چیلنجز کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور ثابت قدم رہے لیکن اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے جس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ان قوانین کو واپس لینے کا اعلان معافی نامہ کے ساتھ کیا۔ پوری تحریک کے دوران ہندوتو بریگیڈ اور بی جے پی کے علاوہ بیشتر میڈیا ہاؤسز نے خاص طور سے بہت منفی کردار ادا کیا۔ میڈیا نے گویا اس رول کو ہی بدل کر رکھ دیا جو اس کے وجود کا مقصد ہے۔
میڈیا کو جمہوریت میں چوتھا ستون کہا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے گا۔ البتہ کسان تحریک میں میڈیا نے خود کو حکومت اور کارپوریٹ کے ہاتھوں گروی رکھ کر عوام اور کسان مخالف پروپیگنڈہ چلانا اپنا مقصد بنالیا جس کی وجہ سے اب وہ پورے طور پر بے وزن ہوچکا ہے۔ اگر متبادل میڈیا نے اپنا کردار پوری مستعدی سے نہ نبھایا ہوتا تو کسان تحریک کے لیے اس طویل اور مشکل سفر کو جاری رکھ پانا آسان نہیں ہوتا۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جب اسٹوڈنٹس اور عام شہریوں نے اپنی تحریک چلائی تھی تب بھی میڈیا اور ہندوتو عناصر کا کردار بہت مایوس کن اور شرمناک رہا تھا۔ کسانوں کی طرح سی اے اے اور این آر سی مخالف تحریک کو بھی ملک کے تمام طبقوں سے تعاون ملا تھا بنابریں وہ تحریک جاری رہی تھی۔ اگر کورونا کی وبا طوفان بن کر نہیں چھا جاتی تو اس کا پورا امکان تھا کہ نریندر مودی کی قیادت والی سرکار کو اس قانون کو بھی واپس لینا پڑتا۔ اب جبکہ زرعی قوانین سے متعلق قوانین کو بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی مرکزی سرکار نے واپس لے لیا ہے تو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف عوامی تحریک ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوسکتی ہے اور عوام مخالف اس قانون کو بھی واپس لینا ہوگا۔ آسام میں تو اس تحریک کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ شاہین باغ نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جو پرامن عوامی تحریک کی مثال پیش کی تھی، اس کو پوری دنیا میں سراہا گیا تھا۔ نریندر مودی سرکار کی دوسری اننگ میں کسانوں کی تحریک سے قبل یہ پہلی مؤثر ملک گیر عوامی تحریک تھی جس نے ہندوستانی جمہوریت کو نئی زندگی عطا کی تھی۔ گھٹن اور خوف کا جو حصار ہندوتو عناصر نے قائم کر دیا تھا، اس کو توڑنے میں بڑی کامیابی اس تحریک کو حاصل ہوئی تھی اور اسی وجہ سے وہ متنازع قانون اب تک سرد بستہ میں پڑا ہوا ہے۔ سرکاری پاور کے زعم میں مبتلا ان تمام طاقتوں کے لیے یہ تحریکیں ایک سبق ہے جو ایک ہی رنگ میں سب کو جبراً رنگ دینا چاہتی ہیں اور تکثیریت پر مبنی جمہوریت کی روح کو کچل دینے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ عوام کی خاموشی ان کی مجبوری نہیں، کارپوریٹ اور زرخرید میڈیا کے بھروسہ جمہوری قدروں کا گلا گھونٹنے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ انہیں ہر پانچ سال بعد عوام کا سامنا کرنا ہوگا۔ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو بعض مقامات ہی پر جو شکست ہوئی، اسی سے انہیں اندازہ ہوگیا کہ اترپردیش کے اسمبلی انتخاب میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دستوری جمہوریت میں عوام کی اسی قوت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جس کے سامنے عوام مخالف حکومت کی اکڑ ختم ہوجاتی ہے۔ اسی لیے تمام شہریوں کو اس بات کو یقینی بنائے رکھنا ہوگا کہ دستور کی حفاظت ہوتی رہے اور جمہوری قدروں کی پامالی کسی صورت میں ممکن نہ ہو۔ جب تک باشعور عوام کی صدائیں اپنے دستوری حقوق کی بازیابی کے لیے اٹھتی رہیں گی تب تک ڈکٹیٹرشپ کا نظام اپنی طنابیں گاڑنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]