محمد عباس دھالیوال
چین کے مغربی سرحدی علاقے سنکیانگ میں آباد مسلمان اویغور اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جن پر چینی حکومت کی طرف سے کی جانے والی زیادتی کی خبریں اکثر اوقات ہمیں اخبارات میں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصے پہلے چین کی طرف سے ایک نئی پابندی عائد کی گئی تھی جس کے تحت اویغور مسلمان والدین اپنے نو زائیدہ بچوں کے ایسے نام نہیں رکھ سکتے جو حکام کے بقول، ’انتہائی مذہبی‘ معنی رکھتے ہوں ۔ چینی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ سنکیانگ میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ سے وابستہ شدت پسند اس خطے میں بدامنی میں ملوث ہیں اور اس کی کارروائیوں کا مقصد مذہبی شدت پسندی پر کنٹرول کرنا ہے۔ چند برس پہلے ایک رپورٹ میں یہاں تک انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت صوبہ سنکیانگ میں رہنے والے اویغور مسلمانوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے خواتین کی نس بندی کرا رہی ہے یا انہیں مانع حمل آلات کے استعمال پر مجبور کر رہی ہے۔ چینی امور کے ایک ماہر ایڈریان جنز کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے اور انہوں نے اقوام متحدہ سے معاملے کی تحقیقات کرنے کی اپیل کی ہے جبکہ چین نے اس رپورٹ کو’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا ۔
مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ تقریباً دس لاکھ اویغور مسلمانوںاور دوسرے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت اسے ’ری ایجوکیشن کیمپ‘ کہتی ہے۔ پہلے وہ ان کیمپوں کی موجودگی سے بھی انکار کیا کرتی تھی لیکن بعد میں یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا تھا کہ یہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدام ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ادھر ’بی بی سی‘ نے 2019 میں تحقیقات میں پایا تھا کہ سنکیانگ میں بچوں کو منظم طریقے سے اپنے کنبے سے الگ کیا جا رہا ہے۔ ایسا انہیں اپنی مسلم برادری سے الگ کرنے کی کوشش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ کچھ برس پہلے ایڈریان جینز کی رپورٹ میں، جو کہ سرکاری علاقائی اعداد و شمار، پالیسی سازی سے متعلق دستاویزات اور سنکیانگ میں اقلیتی برادری کی خواتین کے ساتھ انٹرویو پر مبنی تھی، الزام لگایا گیا تھا کہ اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادری کی خواتین کو اسقاط حمل سے انکار کرنے پر کیمپ میں نظربند رکھنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ انہیں نس بندی کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ 2016 کے آخری مہینوں سے جو زیادتیاں شروع ہوئی ہیں، اس نے سنکیانگ کو پولیس والی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ولادت میں مداخلت ایک عام عمل بن چکا ہے۔
سنکیانگ کے کیمپ میں زیر حراست رہنے والی خواتین نے بتایا کہ انہیں ماہواری روکنے کے لیے انجکشن لگائے گئے تھے۔ حمل کو کنٹرول کرنے والی دوا کے اثرات کے باعث ان میں غیر معمولی طور پر خون بہتا رہتا تھا۔ اب حال ہی میں جو تازہ اعداد وشمار والی رپورٹ آئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں اقلیتوں کے ساتھ برتا جانے والا برتاؤ انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سنکیانگ میں تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باشیلے کا کہنا ہے کہ چین کی سنکیانگ میں اویغور اقلیت کے خلاف 2017 سے 2019کے درمیان ’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘ کے خاتمے کی مہم بین الاقوامی قوانین کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہے۔ یہ ذکر کرتا چلوں کہ چینی اداروں نے 2017 سے 2019 کے درمیان سنکیانگ میں دھکڑ پکڑ شروع کی تھی۔ اسے چینی حکومت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کا نام دیاتھا۔
سنکیانگ کے حالات پر مشیل باشیلے نے 48 صفحات پر مشتمل رپورٹ ترتیب دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے مسلمان اقلیت اویغور سمیت دیگر مسلمان گروہوں کے خلاف بیجنگ کے امتیازی سلوک اور حراست میں رکھنے جانے کے من مانے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ مکینوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق سلب کیے گئے۔ اسے بین الاقوامی جرائم خاص طور پر انسانیت کے خلاف اقدامات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور امریکہ کی حکومت بیجنگ پر اویغوروں کے خلاف سنگین زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں جن میں تشدد، جبری نس بندی، جنسی استحصال اور بچوں کو جبری طور پر علیحدہ کرنا شامل ہے۔ ہیومن رائٹس واچ جیسے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پہلے بھی اس طرح کی رپورٹیں دیتے رہے ہیں جن سے یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ چین میں نسلی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے۔ سنکیانگ کے جن تقریباً 10 لاکھ اویغوروں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے، ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
مشیل باشیلے نے چین کے نام نہاد پیشہ ورانہ تعلیم کے حراستی مراکز کی صورت حال کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان مراکز میں جبری طبی علاج کیا جاتا ہے جبکہ حراست کے دوران ان افراد کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایذا رسانی اور بد سلوکی کے ساتھ ساتھ بدتر حالات شامل ہیں۔ ان الزامات کے قابل اعتبار شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق اسی طرح جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات بھی قابل اعتبار ہیں مگر بیجنگ کا کہنا ہے کہ چین کے خلاف طاقتوں کی جانب سے گھڑی جانے والی گمراہ کن معلومات، جھوٹ اور مفروضوں پر مبنی نام نہاد جائزہ رپورٹ اس کے قوانین اور پالیسیوں کو مسخ کرتی ہے، یہ رپورٹ چین کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ مذکورہ ضمن میں چین کے مندوب انگ جون نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنکیانگ کے من گھڑت مسئلے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں جن کا مقصد چین کے استحکام کو نقصان پہنچانا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے اس رپورٹ کو جاری ہونے سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ان کی نہیں، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی رپورٹ ہے۔ دوجارک کے مطابق، ’وہ ان کے کام میں مداخلت کرنا یا اس پر اثر انداز ہونا نہیں چاہتے، چاہے وہ مشیل باشیلے ہوں یا کوئی اور، جو اس عہدے پر فائز ہو۔‘ ادھر اسٹیفن دوجارک کے حوالے سے خبر یہ آئی ہے کہ سنکیانگ کے بارے میں گوتیریس کا موقف واضح ہے۔ گوتیریس نے فروری میں میونخ سیکورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ انہوں نے چینی حکام سے کہا ہے کہ انہیں سنکیانگ میں انسانی حقوق کا مکمل احترام کرنا چاہیے اور اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دینی چاہیے ۔n
[email protected]