انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ ’’You have watch, we have time‘‘ مطلب آپ کے پاس گھڑی ہے تو ہمارے پاس وقت ہے۔ تقریباً دو دہائی تک طالبان امریکہ کے لیے یہی کہتے رہے۔ امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان میں وقت کا پہیہ پھر سے اسی مقام پر آچکا ہے۔ زورزبردستی سے ہی سہی لیکن کابل میں طالبان کی حکومت وجود میں آچکی ہے۔ اسی لیے افغانستان میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق پوری دنیا میں ایک نئی تشویش نظر آرہی ہے۔ کچھ ممالک کھل کر طالبان کی حمایت میں آرہے ہیں تو کئی ایسے بھی ہیں جو تختہ پلٹ کے بعد کے حالات میں لیے گئے اپنے اسٹینڈ سے پلٹ رہے ہیں۔ افغانستان کے پڑوسی اور وہاں پاکستان-چین کے بڑھتے دخل کے بیچ یہ بدلتی ہوئی صورت حال ہندوستان کے نظریہ سے کافی اہم ہے۔ اس سمت میں اسی ہفتہ ہوئے برکس سمٹ میں رکن ممالک کا افغانستان سے متعلق ’نئی دہلی مینی فیسٹو‘ پر اتفاق رائے کافی اہم ہوجاتا ہے۔ ممبر ممالک-جن میں ہندوستان، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ساتھ روس اور چین بھی شامل ہیں، نے افغانستان سے تشدد سے پرہیز کرنے اور پرامن طریقہ سے حالات کو سلجھانے کی اپیل کی۔ بیشک اس میں سیدھے سیدھے طالبان کا ذکر نہ ہو، لیکن افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے کی وجہ سے یہ اپیل ظاہری طور پر طالبان سے ہی ہے۔
برکس کا ممبر ملک ہونے کے ناطے چین بھلے ہی طالبان کو دی گئی اس اجتماعی نصیحت کا حصہ ہو، لیکن اس نے افغانستان کی مدد کے نام پر طالبان کے لیے اپنا خزانہ کھول دیا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چین طالبان کی حمایت کے اپنے رُخ سے پیچھے ہٹ رہا ہے، لیکن روس کے اسٹینڈ نے دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی کافی راحت پہنچائی ہے۔ روس بھی اگر چین کے راستہ پر چلتا تو طالبان کو اقوام متحدہ جیسے اسٹیج سے تسلیم کیے جانے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا۔ لیکن برکس سمٹ میں صدر پتن نے بغیر کسی حیلے بہانے کے افغانستان کو اپنے پڑوسی ممالک کے لیے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کا مرکز بننے کے خطرے سے بچنے کا انتباہ دے کر فی الحال اس خطرے کو ٹال دیا ہے۔
جب افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی ہورہی تھی تو روس بھی چین، پاکستان اور ایران کی طرح طالبان سے نزدیکی بڑھاتا نظر آرہا تھا۔ حالیہ دنوں میں امریکہ سے ہندوستان کی گہری ہوتی دوستی کے مابین روس کے اس رُخ کو ہندوستان کے لیے تشویشناک بتایا جارہا تھا۔ ایسا سمجھا جارہا تھا کہ چین اور پاکستان کے بڑھتے دخل کے بیچ طالبان سے بات چیت کا چینل کھولنے کے لیے روس ہی ہندوستان کا اکیلا سہارا بن سکتا تھا اور اس کے امریکی مخالف خیمہ میں جانے سے ہندوستان کے لیے اپنے پڑوس میں مچی ہلچل میں الگ تھلگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
بہرحال اب یہ خدشہ بے بنیاد ثابت ہوتا نظر آرہا ہے اور طالبان کو لے کر ہندوستان کی ویٹ اینڈ واچ پالیسی پر پڑ رہا دباؤ بھی کافی حد تک کم ہوا ہے۔ صرف روس ہی نہیں، اس کے اثر والے تاجکستان جیسے ملک بھی طالبان کے تعلق سے مطمئن نہیں ہیں۔ تاجکستان کچھ دن پہلے ہی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان کی اپیل کو ٹھکرا چکا ہے۔ روس کو اعتماد میں لیے بغیر تاجکستان نے اتنا بڑا فیصلہ لیا ہوگا، یہ ممکن نہیں نظرآتا۔ ایسے میں یہ ماننے کی مناسب وجہ ہے کہ بھلے ہی روس طالبان کی نئی حکومت کی تاجپوشی کا دعوت نامہ پانے والے چنندہ ممالک میں شامل ہو، مگر اندرونی طور پر وہ بھی طالبانی حکومت کے خطروں سے متعلق الرٹ ہے اور ہندوستان کی ہی طرح ویٹ اینڈ واچ کی پالیسی کے تحت انٹلیجنس اور سفارتی سطح پر کام کررہا ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ افغان بحران مسئلہ پر گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی کی صدر پتن سے اور روس کے این ایس اے کی ہمارے این ایس اے اجیت ڈوبھال سے ہوئی ملاقات اپنا اثر دِکھا رہی ہے۔
ہندوستان اور روس کی مشترکہ تشویشات طالبان میں نئی ’دہشت گرد‘ حکومت کی تشکیل کے بعد اب پوری دنیا کے لیے تشویش کا سبب بن گئی ہیں۔ اس حکومت میں وزیراعظم بنا ملا حسن اخوند اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل بین الاقوامی دہشت گرد ہے۔ نائب وزیراعظم بنا ملا عبدالغنی برادر طالبان کے بانیوں میں سے ایک ہے اور کئی سال پاکستان کی جیل میں گزار چکا ہے۔ طالبان کی اس نئی عبوری حکومت میں سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ بنایا گیا ہے جو حقان نیٹ ورک کا سرغنہ ہے۔ حقانی 2008میں کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ پر حملہ میں شامل تھا۔ امریکہ نے بھی اس پر50لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔ طالبان کو تشکیل دینے والے ملاعمر کا بیٹا ملایعقوب اس حکومت میں وزیردفاع ہے، وہیں امریکہ کی جیل میں سزا کاٹ چکا بین الاقوامی دہشت گرد خیراللہ خیرخواہ کو وزیراطلاعات بنایا گیا ہے۔
واضح ہے کہ اسلام اور شریعت کے نام پر حکومت چلانے کی بات کہہ رہے طالبان ذرا بھی نہیں تبدیل ہوئے ہیں اور 20سال پہلے کے خوف اور بے رحمی کے اسی پرانے ماڈل پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ خطرہ اس مرتبہ زیادہ ہے کیو ںکہ اس مرتبہ پورا افغانستان طالبان کے قبضہ میں آچکا ہے یعنی فوری طور پر ملک کے اندر نئی حکومت کو اپنی ’سنک‘ قائم کرنے سے روکنے والی کوئی طاقت نہیں بچی ہے۔ افغانستان کے عوام اب باہری دنیا کے ہی بھروسے ہیں، جو فی الحال خود کو ہی طالبان سے بچانے کی کوششوں میں مصروف اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔
کابل پر قبضہ کے بعد طالبان دعویٰ کررہے تھے کہ اس مرتبہ وہ خواتین کو بھی حقوق دیں گے، لیکن بندوق کے زور پر بنائی گئی دہشت گردوں کی اس حکومت میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں ہے۔ کابل پر قبضہ کے بعد گزشتہ 20دنوں میں افغانستان میں ایسا کافی کچھ ہوا ہے، جس نے طالبان کے قول و فعل کے فرق کی پول کھول کر اس کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے لادیا ہے۔ افغانستان میں خواتین پھر سے برقعوں میں قید ہوگئی ہیں، چہرہ اور جسم کے اعضا دکھانے والے کھیل خواتین کے لیے بین کردیے گئے ہیں، ٹی وی چینلوں سے خواتین اینکر ہٹا دی گئی ہیں، کالج کی کلاسز میں لڑکے-لڑکیوں کے درمیان پردے لگا دیے گئے ہیں، سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والی خواتین پر پوری بے حیائی سے کوڑے برسائے جارہے ہیں، ہزارہ وادی کی خواتین کی طالبانی جنگجوؤں سے جبراً شادیاں کروائی جارہی ہیں، مخالفین کو بطور سزا پبلک مقامات پر گولیوں سے بھونا جارہا ہے اور کئی لوگوں کو بے رحمی سے پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے۔ جن صحافیوں نے اس وحشی پن کو دنیا کے سامنے لانے کی ہمت دکھائی، انہیں بھی طالبان کوڑے برسا کر اذیتیں دے رہے ہیں۔ہندوستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو تو طالبان کا سچ سامنے لانے کی قیمت پہلے ہی اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔
واضح ہے کہ اسلام اور شریعت کے نام پر حکومت چلانے کی بات کہہ رہے طالبان ذرا بھی نہیں تبدیل ہوئے ہیں اور 20سال پہلے کے خوف اور بے رحمی کے اسی پرانے ماڈل پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ خطرہ اس مرتبہ زیادہ ہے کیو ںکہ اس مرتبہ پورا افغانستان طالبان کے قبضہ میں آچکا ہے یعنی فوری طور پر ملک کے اندر نئی حکومت کو اپنی ’سنک‘ قائم کرنے سے روکنے والی کوئی طاقت نہیں بچی ہے۔ افغانستان کے عوام اب باہری دنیا کے ہی بھروسے ہیں، جو فی الحال خود کو ہی طالبان سے بچانے کی کوششوں میں مصروف اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ 9/11کی بیسویں برسی پر بھی نہ دنیا بدلی ہے اور نہ ہی طالبان۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)