اسرائیل پر مسلم لیڈروں کے زبانی حملے

0

اسرائیل کے ساتھ امریکہ کھڑا ہے، اس کے اتحادی ممالک کھڑے ہیں، وہ 41 کلومیٹر لمبے اور 10 کلومیٹر چوڑے غزہ کو ویران بنا دینے دینے کے لیے اس کی مدد ہتھیاروں سے کر رہے ہیں، حماس سے جنگ کے نام پر اسرائیل کے عام فلسطینیوں پر بمباری کو رکنے نہیں دے رہے ہیں، جنگ بندی کے خلاف ووٹنگ کر رہے ہیں تو مسلم لیڈران بھی ہاتھ پرہاتھ رکھے اور منہ پر تالا لگائے نہیں بیٹھے ہیں۔ غزہ کے خلاف بمباری شروع ہونے کے بعد سے بیشتر مسلم لیڈران اسرائیل کے خلاف بول رہے ہیں، وہ اسرائیل پر مسلسل زبانی حملے کر رہے ہیں، البتہ وہ مسلم لیڈران ذرا محتاط ہیں جنہوں نے امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنے ملک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے، وہ مسلم لیڈران بھی نپے تلے انداز میں جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے کوشش کر رہے تھے تاکہ امریکہ ان کی حفاظت اسی طرح کرے جیسے وہ اسرائیل کی کرتا ہے۔ اب ان کے ملک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال ہو جانے پر امریکہ انہیں اسرائیل سمجھتا یا نہیں، اس پر کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ اس وقت ان کے اس تذبذب کو سمجھنا ضروری ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کے آج کا خیال کریں یا اپنے کل کا۔ اس سے پہلے بھی حماس کو جواب دینے کے نام پر اسرائیل غزہ پر بمباری کرتا رہا ہے، نئے ہتھیاروں کا استعمال کرتا رہا ہے، عام فلسطینی شہید ہوتے رہے ہیں اور پھر غزہ کی مدد کے لیے امیر عرب ممالک فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ غزہ کی جنگ ابھی جاری ہے، اس لیے وہ فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں لیکن یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس جنگ کے ختم ہوتے ہی وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گے، غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے خطیر رقم دینے کا اعلان ضرور کریں گے اور امید یہ بھی رکھی جانی چاہیے کہ یہ رقم غزہ میں قبرستان بنانے کے لیے بھی کام آئے گی، کیونکہ اس جنگ نے عام فلسطینیوں کو ایک بار پھر یہ احساس دلا دیا ہے کہ ان کے لیے گھر کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی ضرورت بڑے قبرستانوں کی ہے۔ ان کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہ گیا ہے کہ غزہ جنگ کوئی یمن کی جنگ جیسی نہیں ہے، ورنہ سعودی عرب نے 2014 سے جیسے یہ جنگ لڑی ہے، غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی طرف سے شامل ہوتا اور یمن کی جنگ میں سعودی عرب کو شکست دینے کے لیے جیسے حوثیوں کی پشت پر ایران کے کھڑے رہنے کی بات کہی جاتی رہی ہے، حماس کی پشت پر اسی طرح ایران کے کھڑے رہنے کی بات کہی جاتی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ایران کچھ نہیں کر رہا ہے، وہ پہلے دن سے بہت کچھ کر رہا ہے، ایرانی لیڈروں نے اسرائیل پر زبانی حملہ جاری رکھا ہوا ہے، بار بار انتباہ دے رہے ہیں اور ان کے انتباہ کا یہ اثر ہے یا کچھ اور کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری میں کمی نہیں آرہی ہے، عام فلسطینیوں پر بمباری کرنے والوں کا جوش بڑھتا جا رہا ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ملکوں کے یہودی بھی جنگ بندی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، وہ بھی اسی طرح جنگ مخالف جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جیسے مسلم لیڈران کر رہے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان خود کو مذہبی لیڈر ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے ہیں۔ جہاں بھی خود کو مسلمانوں کا لیڈر ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں، غزہ کے خلاف جنگ کی ابتدا کے بعد سے اردگان مسلسل اسرائیل پر زبانی حملے کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ 2020 میں ترکی نے دوسری ناگورنو قرہ باغ جنگ میں آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کی کھل کر مدد کی تھی، ایک طرح سے جنگ کا حصہ بن گیا تھا لیکن اگر کوئی یہ امید کرتا ہے کہ ترکی اسی طرح کا رول غزہ کی طرف سے جنگ کرنے کے لیے نہ سہی، جنگ بندی کے لیے ادا کرے گا، فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرے گا تو یہ امید ہی غلط ہے۔ اردگان نے ترکی کو یوروپی یونین کی رکنیت دلانے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے، غزہ کے فلسطینیوں کا درد کیا اتنا زیادہ ہے کہ اردگان اپنی جدوجہد کو بھلا دیں، ترکی کے لیے یوروپی یونین کی رکنیت کا خواب چھوڑ دیں؟ وہ تو اسرائیلی حکومت تحمل سے کام نہیں لے سکی اور اردگان کو اسرائیل سے تعلقات پر فیصلہ لینا پڑا لیکن یہ فیصلہ پچھلی بار کی طرح چند برسوں کا فیصلہ ثابت ہوگا یا مستقل ہوگا، اس پر کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اس ایشو پر بحث کا یہ وقت نہیں ہے اور اگر بحث کی بھی جائے تو کتنے لوگ قول و عمل کے میزان میں لیڈروں کے سچ اور جھوٹ کو تولتے ہیں؟ پھر یہ کہ غزہ جنگ ابھی جاری ہے اور جب تک یہ جنگ جاری رہے گی، اسرائیل پر زبانی حملے کا موقع رجب طیب اردگان کو بھی ملتا رہے گا اور ان کے جیسے دیگر مسلم لیڈروں کو بھی۔ ان کے جیسا لکھنا ضروری ہے، کیونکہ تمام مسلم لیڈران ایک جیسے نہیں۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اپنے عمل سے یہ بتایا ہے کہ وہ اسرائیل پر زبانی حملوں سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے عملی اقدامات میں یقین رکھتے ہیں۔ بحرین کے ایوان زیریں نے اسرائیل سے اقتصادی رشتہ روکنے اور وہاں سے سفارتکار کو بلانے کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراقش کی طرح بحرین نے بھی اسرائیل سے رشتہ بناتے وقت اپنا مفاد دیکھا تھا، فلسطینیوں کا خیال نہیں کیا تھا، اس لیے اسرائیل-بحرین تعلقات پر دعوے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ادھر لاطینی امریکی ممالک، کولمبیا، چلی، بولیویا، ہونڈوراس مسلم اکثریتی ممالک نہیں ہیں۔ کولمبیا میں تقریباً 87 فیصد، چلی میں 61 فیصد عیسائی ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں مذہب کو نہ ماننے والوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ اس سے بڑی تعداد انسانیت کو ماننے والوں کی ہے۔ بولیویا میں تقریباً 87 فیصد عیسائی ہیں لیکن اس ملک کے لیڈروں کے لیے بھی غزہ کی جنگ ایسی جنگ نہیں ہے کہ اس طرح کے انتباہ سے کام چلایا جائے-’تمام متبادل کھلے ہیں‘ ، ان کے لیے اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ جنگ بندی کے لیے کیا متبادل ہیں، جنگ روکنے کے لیے کس طرح کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملوں کو ’نسل کشی کا عمل‘ قرار دیتے ہوئے جنوبی افریقہ نے اپنے سفارتی عملے کو اسرائیل سے بلانے کا اعلان کر دیا۔ کولمبیا، چلی، بولیویا، جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف اپنے موقف کاعملی اظہار کیوں کیا؟ کیا ان کے پاس عالمی برادری کو بیوقوف بنانے کے لیے الفاظ نہیں تھے؟ بالکل ہوں گے مگر ان ملکوں کے لیڈران یہ جانتے ہیں کہ جنگ یوکرین کے خلاف ہو یا غزہ کے خلاف، عام لوگوں کی ہلاکتوں پر خاموشی اس دنیا کے لیے ہی تباہ کن نہیں، انسانیت کے لیے بھی سم قاتل ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS