ویلنٹائن ڈے: ایک بدنما داغ جوکردار کو مار ڈالتا ہے

0

وزیر احمد مصباحی
آج ایک ایسے دور میں جبکہ دنیا کی تقریباً ساری قوتیں قوم مسلم کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہو، امت مسلمہ کا خواب خرگوش میں پڑے رہنے کا عمل واقعی قابل افسوس ہے. دشمن عناصر آج اسلام کے خلاف طرح طرح کے زہریلے نصاب کی تکمیل میں مصروف ہیں. مختلف طریقوں، جہتوں، رویوں اور آلہ کار کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی پر شب خوں مارنے کے تاک میں گھات لگائے بیٹھے ہیں. دور حاضر کے مطابق مغربی تہذیب و تمدن سے رنگ و آہنگ بےشمار چیزیں ہمارے ارد گرد پھیلا دی گئی ہیں کہ ہم ناچاہتے ہوئے بھی کسی طرح اس کے اسیر ہو جائیں. روز مرہ کی زندگی میں بھی آج ہم ایسی بےشمار چیزیں استعمال کرتے ہیں جو انھیں کا پروڈکٹ ہوتا ہے. انھیں کی کمپنیوں سے وہ مال تیار کیے جاتے ہیں اور اس کے بدولت آج وہ ہمارے ہی ذریعہ مال دولت کی اجتماع سے خود ہمارے ہی خلاف خفیہ پلاننگ کی تکمیل کرنے پر مصر ہیں۔ جسے شاید وقت آنے پر بڑی تیزی سے استعمال کر لیا جائے گا.

ہماری نسل نو پر اقتدائے مغرب کا کیا خمار چھایا ہوا ہے. اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو اس نوعیت کے ایک دو نہیں بلکہ معاشرے میں ہزاروں واقعات مل جائیں گے. جو اسلامی تعلیمات کی اگر ایک طرف اہمیت و افادیت کو کمزور کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب مغربی تہذیب و کلچر کے فروغ کا زبردست ذریعہ بھی. ابھی اسی ماہ میں آپ ۱۴، فروری کو ویلنٹائن ڈے کے دن دیکھیں گے کہ لوگ کس طرح فحاشیت کا ننگا ناچ کرتے ہیں. کس طرح اخلاق و کردار اور ادب و احترام کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں. سرخ گلاب کا یہ دلدادہ اپنے محبوبہ اور معشوقہ سے ملاقات کے نام پر انسانیت کی ساری دیواریں منہدم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. تاریخی اوراق اگر پلٹئے تو معلوم ہو گا کہ یہ کلچر بھی مغربی ممالک کی بہترین چالاکی کی صورت میں ہمارے معاشرے پر پھیلا دیا گیا ہے. تا کہ ہمارے مسلم نوجوانوں کو اپنے دنیاوی محبوباؤں سے ملنے کے نام پر ارتکاب برائ و عریانیت کا ایک لمحہ میسر آ سکے اور وہ اس طرح اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتا چلا جائے. مختلف حقائق و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ویلنٹائن نامی ایک پادری رہتا تھا. اسی دور میں اسے ایک راہبہ سے عشق ہو گیا تھا. لیکن مشکل یہ تھا کہ عیسائیت میں راہب و راہبہ کا عشق و مستی کرنا اور پھر شادی رچا لینا جائز نہیں ہے. اس لیے یہ دونوں اپنے مذہبی قوانین کی رو سے ایک دوسرے سے ملاقات سے بالکل عاجز تھے. اچانک ایک دن راہب ویلنٹائن کو ایک ترتیب سوجھی۔ اس نے اپنی محبوبہ کو یہ کہلا بھیجا کہ اگر وہ دونوں ۱۴فروری کو ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور کچھ کرتے ہیں تو اس میں کچھ بھی حرج نہیں ہے اور نا ہی مذہب کی رو سے اس پر کوئی عتاب نازل ہوگا. یہ ترکیب ان دونوں کے دماغ میں رچ بس گئ اور دونوں نے اس رات ایک ملاقات کے نام پر وہ کارنامے انجام دیے جو نام نہاد عشق و محبت اور آوارہ گردی کے نام پر اکثر انجام دیا جاتا ہے. جب یہ بات دوسروں کو معلوم ہوئی تو ان لوگوں نے ویلنٹائن کو قتل کر دیا. اور پھر تب جا کر اسی دن سے عشاق حضرات اس کے نام پر ویلنٹائن ڈے منانے کی جانب گامزن ہو گئے اور دھیرے دھیرے یہ سلسلہ اتنا زور پکڑ گیا کہ آج اس خبیث رسم کی چپیٹ میں بےشمار مسلم معاشرہ بھی آ گیا ہے.



اس دن ہوتا کیا ہے؟ نوجوان اپنے محبوبہ کو اور معشوقہ اپنے عاشق دھتورا کو پھولوں کا گفٹ پیش کرتے ہیں. شراب خانوں، تھیٹر، اور قمار خانے بھرے پڑے ہوتے ہیں. خوب عشق و سرمستی کا کھیل کھیلا جاتا ہے. بازاروں اور مارکیٹوں میں پھولوں خاص کر سرخ گلاب کی قیمت تو آسمان چھونے لگتی ہے. ہاں! یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اس دن کو چوتھی صدی عیسوی تک بطور تعزیت کے منایا جاتا تھا لیکن دھیرے دھیرے یہ مغربی تہذیب کی کرم فرمائی ہی کہئے کہ یہ دن عاشق و معشوق کے ملن کے طور پر منایا جانے لگا. اور پھر اس بری رسم اور غلط کلچر نے اس قدر عروج پایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم ذہن و دماغ کو بھی اپنا اسیر بنا لیا. آج شاید ہی کچھ ایسے افراد ہوں جو اس حرکت قبیح کے ارتکاب سے اجتناب کرتا ہو. دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی نصیحتیں کرتا ہو اور وقت آنے پر کچھ قربانی پیش کرکے اپنے اسلامی بھائیوں کو اس سے بچانے کی سعی پیہم کرتا ہو.ورنہ تو اکثر و بیشتر افراد خاص کر نوجوان طبقہ اس کے مکمل طور پر اسیر ہو چکے ہیں. وقت سے پہلے ہی اس کے لیے بڑے جوش و خروش کے ساتھ تیاریاں کی جاتی ہیں. ایک دوسرے سے بڑی مسرت و شادمانی سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جیسے مانو وہ کوئی ثواب کا کام کر رہا ہو. ویلنٹائن ڈے اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین کے سراسر مخالف و متصادم ہے. جو ہمیں اسلامی روش سے ہر آئے دن بالکل دور کرتے چلے جا رہے ہیں. اسلام میں تو کسی غیر محرم سے ملنے، اس سے سلام و کلام اور گفت و شنید کو بڑے زوردار اور بھرپور تنبیہ بھرے لہجے میں ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ غیر محرموں سے ملنا جلنا منع ہے. پھر بھی ہم یہ سب جانتے اور سمجھتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کے دن ایک غیر محرم سے ملنے آبادی سے نکل کر کسی سنسان مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں کہ کہیں کوئی ہمیں دیکھ نا لیں اور پھر سماج میں ہماری عزت و احترام بالکل نیلام نہ ہو جائے. واقعی آج ہمارا مادیت گزیدہ نوجوان طبقہ اپنے ہر عمل اور قول و فعل میں مغربی تہذیب و کلچر کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم فیشن سے قریب ہو جائیں اور لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں.



سماج و معاشرے میں زندگی گزار رہے سنجیدہ فہم اور ذی علم حضرات اور والدین کی تو کچھ زیادہ ہی ذمہ داری بنتی ہے . انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر خاص کر اس دن تو بڑی کڑی نظر رکھیں کہ وہ کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے، کس سے تعلق قائم کرتا ہے اور کیسے اعمال انجام دیتا ہے؟ یاد رکھیں! اگر ہم خود ہی اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھیں گے، اس کے اچھے برے کا انتخاب کر کے بھلائیوں کی طرف گامزن نہیں کریں گے تو پھر اس مطلب پرستی کے دور میں یہ سب کون کرے گا. ہو سکے تو اس دن انھیں اپنے ساتھ رکھیں یا کہیں کسی دوسرے مقدس یا تاریخ مقام پر سیر و تفریح کے لیے لیں جائیں کہ اس سے اس کا دل بھی بہل جائے گا اور اس فعل قبیح کے ارتکاب سے محفوظ بھی رہے گا. انھیں اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین سے باخبر کریں. ویلنٹائن ڈے کی حقیقت سے پردہ اٹھائیں کہ اس کی بنیاد بالکل فحاشی و عریانیت پر قائم ہے. علما و قائدین کو تو چاہیے کہ وہ اس دن کوئی اسلامی نشست رکھیں جو نسل نو کی دلچسپی سے متعلق ہو اور پھر انھیں شریک کر کے مفید معلومات فراہم کی جائے. ہمارے اس عمل سے جہاں ہمارا بچہ اور قوم کا لب لباب فحاشیوں کے ارتکاب سے مامون رہے گا وہیں دوسری طرف اسلامی روایات اور تہذیب و تمدن کا زبردست فروغ بھی ہوگا.

تمام لوگ اپنے اپنے معاشرے ہی میں یہ کام کر کے دیکھیں اور اگر ایک پورا سماج آپ سے نہیں ہو پا رہا ہے تو صرف اور صرف گھر اور خاندان ہی تک اپنی اس کوشش کو محدود رکھیں،انشاء اللہ ایک نا ایک دن خوشگوار نتائج ضرور سامنے آئیں گے اور پھر اس طرح سے جہاں مغربی تہذیب و تمدن کی آوارگی کا نشہ ہمارے نوجوان نسل کے ذہن و دماغ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے نکل جائے گا وہیں ہمارا معاشرہ بالکل اسلامی کلچر میں رنگ کر امن و آشتی، سلم و سلامتی، اخوت و بھائی چارگی اور ہدایت و رہنمائی کا ایک ایسا خوبصورت گہوارہ بھی بن جائے گا جو ہر لمحہ پھولتا، پھیلتا اور پھلتا ہی رہے۔انشاءاللہ!



 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS