چینی مظالم کے شکار اویغور مسلمانوں کو پھر نہیں ملا انصاف

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

یو این ہیومن رائٹس کاؤنسل نے جب 6 اکتوبر 2022 کو یہ فیصلہ لیا تھا کہ ممبر ممالک کے سامنے چین کی اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے مبینہ انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلے کو رکھ کر ان کی رائے لی جائے تاکہ متحد شکل میں چین کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور مظالم کے شکار لوگوں کو راحت بہم پہنچانے کا انتظام ہو سکے تو بڑی امید پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اب مظلوم اویغور اقلیت کے لیے انصاف کا دروازہ کھل جائے گا اور وہ بھی دنیا کی باقی قوموں کی طرح عزت و وقار اور آزادی کے ساتھ جینے کا اپنا بنیادی حق حاصل کر پائیں گے۔ لیکن دنیا بھر میں انسانی حقوق کے میدان میں سرگرم عمل تنظیموں کو اس وقت بڑی مایوسی ہاتھ آئی جب یو این ہیومن رائٹس کاؤنسل نے ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ چین پر اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے جو الزامات ہیں، ان پر بحث نہیں ہوگی۔ حالانکہ خود اقوام متحدہ کے حقوق انساں دفتر کی اپنی تحقیق موجود ہے جس کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ میں بسنے والے ترکی نسل کی اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ساتھ جس درجے کا بھید بھاؤ ہوتا ہے،وہ انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جب اس مسئلے پر بحث کے لیے یواین ہیومن رائٹس کاؤنسل میں یہ تجویز پیش کی گئی تو 17کے مقابلے 19 ممالک نے ووٹ دے کر اپنا یہ موقف صاف طور پر پیش کر دیا کہ اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے تئیں چین کے انسانی حقوق سے متعلق رکارڈ پر بحث کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بعض ملکوں نے ووٹنگ کے اس عمل میں حصہ نہیں لیا جبکہ بعض دیگر نے چین کی اس حرکت کو صرف’شرمناک‘ کہنے پر اکتفا کرلیا۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر جن ممالک نے بحث کے لیے اپنی عدم رضامندی کا اظہار باضابطہ ووٹنگ کے ذریعے کیا ہے، ان میں بڑی تعداد مسلم ممالک کی ہے جن میں سے بعض کا تعلق خلیجی ممالک سے ہے جبکہ باقی دیگر مسلم ممالک جنہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے اویغور مسلم کے حقوق نہیں بلکہ چین کی حمایتکو ضروری سمجھا، ان کے نام ہیں انڈونیشیا، پاکستان اور صومالیہ۔ البتہ جن گیارہ ملکوں نے اس مسئلے پر ووٹ نہیں دیا، ان میں ہمارے ملک ہندوستان کے علاوہ ملیشیا اور یوکرین شامل ہیں۔ اویغور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے مسئلے پر یو این ہیومن رائٹس کاؤنسل میں بحث نہ ہونا چین کے لیے ایک بڑی جیت ہے اور اس کا اظہار بھی چینی حکومت نے کیا ہے۔ مسئلے پر اپنا پہلا ردعمل پیش کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہووا چون یِنگ(Hua Chunying) نے ٹوئٹ کرکے لکھا ہے کہ ’اس میں (صرف چین ہی نہیں بلکہ تمام) ترقی پذیر ملکوں کی فتح کا راز مضمر ہے۔ اس کو عدل و انصاف اور سچائی کی جیت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے بہانہ جھوٹ گڑھنے اور اس کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے داخلی معاملوں میں مداخلت کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کسی کا راستہ روکنے، انہیں مجبور اور ذلیل کرنے کے لیے ایسے جھوٹ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ‘ان الفاظ سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے کس قدر راحت کی سانس لی ہے اور ایسے وقت میں مغرب کے مقابلے جیت کا احساس ہوا ہے جب روس-یوکرین جنگ کے معاملے میں چین پر دباؤ ہے اور ساتھ ہی تائیوان کا معاملہ گرم ہو چکا ہے۔
سنکیانگ میں کیا ہو رہا ہے؟
یہ بات 2018 کی ہے جب سب سے پہلے دنیا کے سامنے یہ معاملہ آیا تھا کہ چین کے خود مختار اور مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں بسنے والی مسلم اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت کا انکشاف خود اقوام متحدہ نے دنیا کے سامنے کیا تھا کہ سنکیانگ کے خطے میں چین نے جبری گرفتاری کے ذریعے اویغور کا جینا مشکل کر دیا ہے اور انہیں قید کر کے رکھنے کے لیے قید و بند کے مراکز یا ڈٹینشن سنٹرس (Detention Centres) کے جال بچھا دیے گئے ہیں جہاں اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو غیر انسانی ڈھنگ سے رکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر موجود تھا کہ دس لاکھ سے زیادہ لوگ ان مراکز میں غیر انسانی ڈھنگ سے بند کرکے رکھے گئے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں تو چین نے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا لیکن کچھ مدت بعد اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ سنکیانگ میں ایسے مراکز قائم ہیں لیکن اس نے بتایا کہ ان کا مقصد تعلیم، ٹریننگ اور صلاحیتوں کو بڑھاوا دینا ہے تاکہ چین میں’تشدد ‘ کے ماحول کو ختم کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ چین کے اس دعویٰ کو عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ نے قبول نہیں کیا تھا اور اس وقت یو این کی ذیلی تنظیم اینٹی ڈسکریمینیشن کمیٹی کی نائب صدر گے ماکڈوگل نے بیان جاری کرکے شدید فکرمندی کا اظہار کیا تھا اور چین کے قید و بند کے مراکز کو ہی نہیں بلکہ پورے سنکیانگ کے خطے کو ہی ’نو رائٹس ژون‘ یا انسانی حقوق سے عاری قرار دیا تھا۔ محترمہ ماکڈوگل نے اپنے بیان میں مزید یہ کہا تھا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے قید و بند کے مراکز میں رکھا گیا ہے، ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ ان کو کسی خاص جرم کے تحت گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر فرد جرم عائد کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے جو بین الاقوامی سطح پر صریح انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔ ماکڈوگل نے گرچہ اپنے بیان میں مصادر کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن جن لوگوں کو جبری قید میں رکھا گیا تھا، ان کی صورت حال کی تائید ایک رپورٹ سے ہوتی ہے جس کو چین انسانی حقوق دفاع کار نیٹ ورک نامی تنظیم نے پیش کیا تھا۔ حقوق انسانی کی ایک دوسری تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ ’کم سے کم لاکھوں کی تعداد میں لوگ ’’پالیٹیکل ایجوکیشن سنٹرس‘‘ میں بند ہیں۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لکھا تھا کہ’لاکھوں لوگ‘ اور بعض ذرائع کے مطابق دسیوں لاکھ اویغور ایسے مراکز میں قید و بند کی صعوبت برداشت کر رہے ہیں۔ ماکڈوگل کے بیان کے مطابق اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ساتھ چین کا برتاؤ اس لیے سخت ہے، کیونکہ وہ ان کو صرف ان کی نسلی تشخص اور ایمان و عقیدہ کی بنیاد پر’اسٹیٹ کا دشمن‘ قرار دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس سینئر آفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کی حکومت ان مسلمانوں کو اسلامی سلام و آداب کے طور طریقے، حلال غذا کے استعمال، لمبی داڑھی رکھنے یا پردے کے استعمال جیسی تمام چیزوں سے نہ صرف روکتی ہے بلکہ ان اعمال کو جرائم کی فہرست میں شامل کرکے ان پر کارروائی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر اویغور اور مسلمانوں پر نظر رکھی جاتی ہے، ان کے ڈی این اے کے سیمپلز اکٹھا کیے جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں کی پتلیوں کی اسکیننگ بھی کی جاتی ہے تاکہ ہر طریقے سے ان کو سخت سرکاری نگرانی میں رکھا جائے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار قسم کی پابندیوں کا شکار اویغور اور چین کی دیگر مسلم اقلیتیں شب و روز ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سابق ہیومن رائٹس کمشنر مشیل باشیلے جنہوں نے2018 میں سب سے پہلے یہ آواز بلند کی تھی کہ بلا روک انہیں اس خطے کے معائنے کی اجازت دی جائے، انہیں اس سال مئی میں وہ اجازت ملی۔ لیکن اس میں بھی چین نے آزادی کے ساتھ انہیں اپنا کام نہیں کرنے دیا۔ اس دورے کی جو رپورٹ انہوں نے تیار کی تھی، اس کو بھی جاری کرنے سے روکا گیا اور بالآخر جس دن وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہی تھیں (یعنی31 اگست کو)، اس دن اس رپورٹ کو جاری کرنے کا راستہ صاف کیا گیا۔ اس رپورٹ میں انہوں ’جینوسائیڈ‘ جیسے لفظ کا استعمال تو نہیں کیا لیکن اویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے معاملے کو انہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم سے ضرور تعبیر کیا تھا۔ اس قسم کی کئی تحقیقات سامنے آئی تھیں جن کو آزاد دانشوران نے بھی تیار کیا تھا اور خود چین کے سرکاری دستاویزات کے لیک ہوجانے سے بہت سے حقائق سامنے آئے تھے۔ اویغورمسلمانوں نے جو بیانات میڈیا کو دیے، ان سے بھی سنکیانگ کی ناگفتہ بہ صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کو دھیان میں رکھ کر چین نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اویغور معاملے میں مزید تحقیقات سامنے نہ آئے اور اسی لیے جب ہیومن رائٹس کاؤنسل میں اس کو حالیہ فتح ملی تو وہ اپنی خوشی کو چھپا نہیں سکا۔ اس ووٹنگ سے بہت مایوس کن پیغام صرف اویغوروں کے انسانی حقوق کے لیے کوشاں افراد و تحریکات کو ہی نہیں پہنچا ہے بلکہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا سب کو افسوس ہوا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں مثلاً ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ نے اپنے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اویغور حقوق کی بحالی کے لیے سرگرم جماعت’ اویغور ایسوسی ایشن آف وکٹوریا‘ کے صدر علیم عثمان جو آسٹریلیا میں مقیم ہیں، انہوں نے بھی الجزیرہ کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں بڑی مایوسی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ہیومن رائٹس کاؤنسل کے اس فیصلے پر انہیں بہت غصہ بھی آ رہا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اویغورحقوق کی بازیابی کی کوششیں مسلسل جاری رہیں گی اور اس وقتی مایوسی کے بعد پوری ہمت و جرأت کے ساتھ چین کے خلاف بین الاقوامی سطح پر یہ محاذ آرائی ہوگی اور وہاں کی سرکار کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ سنکیانگ میں بسنے والے مسلمانوں اور اویغور نسل کو بنیادی آزادی عطا کرے اور ان کے ساتھ جو مظالم برتے جا رہے ہیں اور چین کی اکثریت ہان نسل کو اویغور کے خلاف استعمال کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کو بند کرے۔ ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ وہ مسلم ممالک پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نہ کریں اور اپنے حقوق کی لڑائی دستوری ڈھنگ سے عالمی برادری کے تعاون سے لڑیں۔ نیشن اسٹیٹ کے دور میں ہر ملک کا اپنا مفاد اسے پیارا ہے۔ مسلم ممالک نے اسلامی اخوت کا جنازہ دہائیوں قبل اپنے کاندھے پر اٹھا کر اسے قبرستان میں دفن کر دیا ہے۔ اب نئے دور میں حقوق کی بازیابی کا وہی راستہ اختیار کرنا ہوگا جو دنیا کی تمام قوموں کے لیے کار آمد ہے۔ n
( مضمون نگار سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ
کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS