موقع کی مناسبت سے الفاظ کا استعمال

0

صحافت میں جہاں ان باتوں کی اہمیت ہے کہ کیا لکھنا ہے، کیسے لکھنا ہے وہیں اس کی بھی اہمیت ہے کہ لکھتے ہوئے کن الفاظ کا انتخاب کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ پہلے اسی لیے اگر کسی نے جرم کیا تو ملزم کا جرم مذہب سے جوڑ کر بتانے سے گریز کیا جاتا تھا۔ کئی بار نام کا ذکر تک نہیں کیا جاتا تھا۔ مثلاً: ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے لڑکے نے دوسرے مذہب سے وابستہ دوشیزہ کی اگر عصمت دری کی تو اسے ہندی میں ’یووَک دَوارایُوتی کا بلاتکار‘ لکھا جاتا تھا اور اردو میں ’لڑکے نے کی لڑکی کی عصمت دری‘ یا اسی طرح کا کوئی جملہ جس سے یہ ظاہر نہ ہو کہ لڑکے کا تعلق کس مذہب سے ہے اور لڑکی کا تعلق کس مذہب سے ہے تاکہ سماج میں تناؤ نہ ہو اور امن و امان برقرار رہے۔ دراصل اس وقت یہ سوچ کارفرما تھی کہ ایک گھناؤنا جرم ہوا اور کیسے ہوا، خبر بس یہی دینی ہے، پولیس یا منصف کا کام نہیں کرنا ہے لیکن آج کئی صحافی اس طرح پیش آتے ہیں جیسے متاثرہ بھی وہی ہوں، گواہ بھی وہی ہوں، پولیس اور جج بھی وہی ہوں۔ اتنا کچھ بننے کے چکر میں وہ صحافی ہی نہیں رہ جاتے، پروپیگنڈہ کرنے والے ایک مذموم شخص بن جاتے ہیں۔ کئی جگہ ان کی اینکرنگ یا رپورٹنگ سے امن و امان کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ متذکرہ خبر آج دی جاتی ہے تو اس میں کئی بار لڑکے کا نام دے دیا جاتا ہے اور کئی بار نام بدل دیا جاتا ہے لیکن نام وہی ہوتا ہے جو اس کی کمیونٹی کے لڑکوں کا ہوتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کا نام بدل دیا جاتا ہے مگر نام وہی ہوتا ہے جو اس کی کمیونٹی کی لڑکیوں کا ہوتا ہے۔ اس سے لوگوں کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس کمیونٹی کے لڑکے نے کس کمیونٹی کی لڑکی کے ساتھ برا سلوک کیا۔ اب ایسی صورت میں سماج میں تناؤ پھیلنے کا اندیشہ رہے گا ہی مگر دھیرے دھیرے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کون صحافی کس خبر کو کیسے پیش کرے گا۔ مثلاً : ایک کمیونٹی کے شخص کے پٹاخے کی فیکٹری میں آگ لگتی ہے، دھماکہ ہوتا ہے، ایک درجن لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ صحافی اسی طرح کچھ لکھتا یا کہتا ہے کہ پٹاخے کی فیکٹری میں آگ لگنے کا دل سوز واقعہ پیش آیا۔ ایک درجن لوگوں کو جانیں گنوانی پڑیں۔ حادثہ فلاں وجہ سے ہوا لیکن دیگر کمیونٹی کے شخص کے پٹاخے کی فیکٹری میں آگ لگتی ہے، دو لوگ مارے جاتے ہیں یا زخمی ہو جاتے ہیں تویہی صحافی ایسا ہی کچھ بولتا یا لکھتا ہے کہ پٹاخے کی فیکٹری میں آگ لگنے سے دو لوگ زخمی؍ ہلاک۔ آگ لگنے کی وجہ کا پتہ نہیں۔ شبہ اس بات کا ہے کہ کیا وہاں کوئی اور تیاری چل رہی تھی۔ اس بات کا پتہ پولیس جانچ کے بعد چلے گا کہ کیا وہاں کوئی دہشت گردانہ سرگرمی چل رہی تھی۔ اب اس خبر میں تفتیش کا ایک زاویہ اس نے دے دیا۔ اگراسی طرح کا بیان کوئی لیڈر بھی دے دیتا ہے تو پھر حادثے کی تفتیش کس طرح ہوگی، یہ بات ناقابل فہم نہیں، چنانچہ اگر ایک مہینہ بھی کسی اینکر کو پوری توجہ سے سن لیا جائے، اس کی زبان پر غور کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ صحافی ہے یا صحافت کو کسی مذموم مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے والا شخص۔ اسی طرح چند مضامین یا چند خبریں پڑھنے پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ مضمون نگاریا نامہ نگار کتنا دیانت دار ہے۔ 15 مارچ، 2019 کو نیوزی لینڈکے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجدوں پر حملہ ہوا۔ حملے میں 51 لوگوںکو جانیں گنوانی پڑیں۔ 40 افراد زخمی ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی اس وقت کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے حملے اور حملہ آور پر واضح موقف ظاہر کیا۔ جاسنڈا نے حملہ آور کو دہشت گرد اورحملے کو دہشت گردانہ حملہ بتایا جبکہ اسی وقت دنیا کے کئی لیڈران دہشت گردانہ حملے کو حملہ اور دہشت گرد کو گن مین یا صرف حملہ آور بتا رہے تھے مگر سیاسی لیڈروں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، انہیں گھریلو سیاست کا خیال کرنا پڑتا ہے، سیاسی مفاد کا خیال کرنا پڑتا ہے، مذہب کی سیاست کرنے کے لیے اسی طرح کے الفاظ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے مگر حیرت تب ہوتی ہے جب صحافی بھی سیاست داں کی طرح مصلحت پسند بن جاتے ہیں اوراشارے کنائے میں بھی سچ کی ترسیل نہیں کرتے۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا ہی کرائسٹ چرچ کے حملے میں ہوا تھا۔ کئی بڑے اخبارات نے دہشت گردانہ حملے کو حملہ اور دہشت گرد کو گن مین یا حملہ آور لکھا۔ یہ بات الگ ہے کہ بعد میں انہیں بھی اپنے الفاظ بدلنے پڑے۔ ’ویکی پیڈیا‘ نے اس حملے کو ’دہشت گردانہ‘ حملہ ہی لکھا ہے۔ کرائسٹ چرچ کے دہشت گردانہ حملے سے پہلے 2008 میں ممبئی حملے کے سلسلے میں بھی کئی جگہ کچھ اسی طرح کی زبان کا استعمال کیا گیا تھا ۔ ’ بی بی سی ‘ نے حملہ آوروں کے لیے کہیں گن مین (gunmen) یعنی مسلح شخص اورکہیں ملی ٹنٹس (militants) کا استعمال کیا تھا۔ اس وقت کے Covert میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف، صحافی اور کئی مقبول کتابوں کے مصنف ایم جے اکبرنے ’بی بی سی‘ کے دوہرے معیار پر سخت اعتراض کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کئی دہائیوں کی دوستی اور بی بی سی سے وابستگی کے بعد میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملے پر بی بی سی کو انٹرویو دینے سے انکار کرتا ہوں۔ وجہ صاف ہے: ممبئی میں ہونے والے واقعات کو دہشت گردوں کے کام کے طور پر بیان کرنے میں آپ کی عدم صلاحیت پر میں حیران، ششدر، پریشان ہوں۔‘ ایم جے اکبر کا اعتراض اس بات پر تھا کہ انہیں ’گن مین (gunmen) ‘ کیوں بتایا گیا۔ ’جرائم پیشہ (criminal)‘ اور ’دہشت گرد (terrorist)‘میں فرق کرنا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں اکبر کی پوری بات پڑھنے سے تعلق رکھتی۔ ان کی بات سمجھنے سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ صحافت میں الفاظ سے کھیلا کیسے جاتا ہے اور کہاں کن لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں اس طرح کی صحافت کا سب سے زیادہ شکار اقلیتیں ہوتی ہیں۔ اس کی مثالیں ہٹلر کے دور میںبھی دیکھی جا سکتی ہیں اور آج کے دور میں بھی۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS