اردو صحافت میں زبان کا استعمال

0

محمد حنیف خان
کسی بھی زبان کے اخبار اپنے مواد کے لحاظ سے متعلقہ معاشرہ کی ذہنی تفوق یا اس کے تنزل کی علامت ہوتے ہیںجبکہ اس میں مستعمل زبان اس بین السطور کو واضح کرتی ہے جس سے وہ سماج تشکیل پایا ہے۔زبان کی لفظیات کے پس پشت ایک تہذیب اور ثقادت کی دنیا آباد ہو تی ہے جو غیر بدیہی ہوتی ہے،یہ الفاظ اور ان کے محل استعمال سے پیدا ہونے والے معانی طے کرتے ہیں کہ معاشرہ کی فکری نہج کیا ہے۔اخبارات کا جائزہ اگر زبان کے حوالے سے لیا جائے تو ہمیں اس کے تین پہلو نظر آتے ہیںعلمی،ادبی اور عام بول چال کی زبان۔آخری الذکر کا تعلق خبروں سے ہے جبکہ علمی اور ادبی زبان کا تعلق اداریہ اور ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے علمی و ادبی مضامین سے ہوتاہے۔چونکہ یہ مضامین اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اس لئے ان کی زبان پر خاص توجہ دی جاتی ہے کہ سطح مرتفع سے نیچے کی زبان کا استعمال کیا جائے، اصطلاحات اور ثقیل لفظیات سے اجتناب کیا جائے تاکہ عام قاری کو تفہیم میں دشواری پیش نہ آئے اور وہ اخبارت کی خبروں کے ساتھ ہی اس کے علمی و ادبی مضامین سے بھی استفادہ کر سکے۔
ہم جب اردو صحافت کی زبان کی دو سوسالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیںتو اس میں اتار چڑھاؤ صاف طور پر نظر آتے ہیں۔دہلی اردو اخبار کو پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے ،اس کی زبان آج کی زبان سے بالکل مختلف ہے۔دیکھئے ’’سنا گیا ہے کہ ان دنوں تھانہ گزر قاسم جان میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی قمار باز پکڑے گئے مثل ہاشم علی خاںوغیرہ کے جو سابق بڑی علتوں میں دورہ تک سپرد ہوئے تھے۔کہتے ہیں کہ بڑا قمار ہوتا تھا لیکن بہ سبب رعب اور کثرت مرداں کے یا کسی طرح سے کوئی تھانیدار دست انداز نہیں ہوسکتا تھا ۔اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانیدار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے مقرر ہوا ہے۔ یہ پہلے جمعدار تھا بہت مدت کا نوکر ہے، جمعداری میں بھی یہ بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا رہا ہے۔‘‘ (مولوی باقر دہلوی۔دہلی اخبار، 15اگست 1841)
برطانوی دور میں لاہور سے نکلنے والے پہلے اردو اخبار ’کوہ نور‘کی زبان دیکھئے جو اشتہار کی شکل میں ہے ’’روپیہ پیشگی کا ہمراہ درخواست خواہ تاریخ اجرا سے اندر ایک مہینے کے عنایت فرمانا چاہیے ورنہ شرح ماہوار شمار کی جانی ہے اور اگر چہ مہینے تک شرح ماہواری سے بھی روپیہ قیمت اخبار کا عنایت نہیں ہوتا تو بعد اوسکی شرح مابعد تتمہ سالیانہ محسوب ہوتی ہے۔(اخبار ’کوہ نور‘ 16جنوری1855) امرتسر سے نکلنے والے اخبار ’وکیل ‘ کی ایک رپورٹ دیکھئے جو محمڈن اینگلو اورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کی تیاریوں کے حوالے سے ہے۔’’سترہواں اجلاس کانفرنس کا جو بمقام بمبئی ہوگا،اس کے انتظام کے لئے جو کمیٹی بمبئی میں قائم ہوئی ہے اس کے سکریٹری قاضی کبیر الدین بیرسٹر نہایت سرگرمی اور جوش سے اپنا کام کر رہے ہیںاور ہم اس بات کو دیکھنے سے خوش ہیںکہ وہ کانفرس کو مفید بنانے اور حقیقت اس سے عملی نتائج پیدا کرنے اور تمام ہندستان کے مسلمانوں کو اس سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بہت کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ (وکیل۔ امرتسر 23اکتوبر 1903)
جنگ عظیم کے دوران فرانس سے متعلق رپورٹ شائع کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ’’یورپ میں جب فرانس کی ہزیمت کی خبریں شائع ہوئیں تو ڈیرک ولیڈگن تک کو کو الجزائری کی عظمت اقرار کرنا پڑا ۔آٹھ نو سال کے اندر تقریبا اس نے کل جزائر پر قبضہ کرلیا تھا۔تمام ساحلی اور اندرونی قلعے فرانسیسی فوج کی لعنت سے پاک ہوگئے تھے۔‘‘(مولانا ابولاکلام آزاد، الہلال،13جولائی تا 25دسمبر 1912) لاہور سے نکلنے والے اخبار ’’بندے ماترم‘‘ کی زبان دیکھئے ،اخبار کی شہ سرخی ہے ۔’’سردار بھگت سنگھ،راج گورواور سکھ دیو کی لاشوں کی بے حرمتی کی تحقیقات‘‘ ذیلی سرخی یوں ہے ’’انڈین نیشنل کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے کمیشن نے اپنا کام شروع کردیا ۔گورنمنٹ نے تحقیقات میں امداد دینے سے انکار کردیا۔‘‘(بندے ماترم، 14اپریل 1931)
یہ سب آزادی سے قبل کے اخبار ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت 415اردو اخبارات ،ہفتہ وار اور ماہنامے ہندستان سے شائع ہوتے تھے۔ جن میں سے 345ہندستان میں رہ گئے۔ 70اخبارات کے مالکین پاکستان ہجرت کر گئے۔ آزادی کے بعد جو اخبار منظر عام پر آئے ان میں دعوت نئی دہلی،نئی دنیا، سیاست، منصف، اعتماد، آزاد ہند،ہند سماچار،اخبار مشرق، آبشار، انقلاب، عکاس،اردو ٹائمز،انقلاب،سالار،قومی آواز اور رہنمائے دکن وغیرہ ہیں۔ان کی زبان بھی دیکھی جا سکتی ہے۔وقت کے ساتھ زبان کا بھی سفر جاری رہا اور اس میں تبدیلیاں آتی رہیں۔دہلی اخبار سے لے کر بندے ماترم تک پہنچتے پہنچتے جن لفظیات کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے وہ لسانیات کے طالب علم کے لئے باعث استعجاب ہے۔جہاں مولوی باقر کی زبان خالص اردو ہے جس میں اضافت کا خصوصی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے وہیں بندے ماترم میں انگریزی لفظیات کا خوب استعمال کیا گیا ہے۔اس سے معاشرے میں انگریزوں اور انگریزی کے ساتھ ہی اس کی تہذیب و ثقافت کے سرایت کرنے کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اردو صحافت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ضروری طور پر انگریزی ،ہندی اور عام لفظیات کا استعمال کیا جا رہا ہے ،حالانکہ ان لفظیات کے رائج متبادل بھی موجود ہیں جن کا استعمال زبان کو مزید خوبصورت بنا سکتی ہے۔ ادھر چند برسوں میں اردو صحافت میںجب سے وہ ہندی خبروں کی مرہون منت ہوئی ہے عوامی زبان کے غیر معیاری الفاظ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اردو صحافت میں مستعمل انگریزی کی لفظیات اور ان کے متبادل دیکھئے۔ ایڈوانس، (پیشگی) کورٹ (عدالت) مسٹر(جناب)سیکورٹی (تحفظ) ووٹرز (رائے دہندگان) انفرااسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) چیئرمین، چیئرپرسن (صدر، سربراہ) ایئر پورٹ (ہوائی اڈہ) اسپیشل (خصوصی)ریسکیو کرنا (بحفاظت بچایا جانا)لینڈ کرانا (زمین پر اتارنا) کنٹرول کرنا (قابومیں کرنا) بائک(موٹر سائیکل) اپوزیشن (حزب مخالف) میمورنڈم (عرضداشت) ڈپریشن (ذہنی تناؤ) ڈیفنس (دفاع) ٹیچرس (اساتذہ) ہاکر (اخبار فروش) وغیرہ۔عوامی زبان کی مثالیں، سیندھ ماری (نقب زنی) خلاصہ(انکشاف)ذات پات (ذات برادری) پریوار(کنبہ ،اہل و عیال) سرکار (حکومت) لگاتار (مسلسل) نقدی (نقد روپے) منمانی (مرضی) وغیرہ۔بعض تراکیب میں ایک اردو اور ایک انگریزی لفظ کے استعمال کا چلن عام ہو رہا ہے مثلا ۔محکمہ صحت کی جگہ محکمہ ہیلتھ،محکمہ تعلیم کی جگہ محکمہ ایجوکیشن وغیرہ جیسی کثیر تعداد میں تراکیب ہیں جو اردو صحافت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ایک دوسری خبر کا یہ ٹکڑا دیکھئے ’’ٹیم کو خفیہ اطلاع ملی کہ اس معاملے کو انجام دینے والا تین جرائم پیشہ ایک بائک پر سوار ہو کر جھالوا گاؤں میں مسجد سے آگے ایک درخت کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ کسی واردات کو انجام دینے کے فراق میں ہیں‘‘۔اس خبر میں واحد اور جمع میں عدم مطابقت کے ساتھ ہی عوامی لفظیات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ایک دوسری خبر میں تذکیر و تانیث کی عدم مطابقت دیکھئے:’’تھانہ میں درخوادست دیا گیا تھا‘‘’’چودھری کا قتل نامعلوم جرائم پیشوں کے ذریعہ کردی گئی ہے۔‘‘اسی خبر میں استعمال کی گئیں یہ لفظیات ملاحظہ کریں ’’ڈیمانڈ،جانکاری،پوچھ گچھ وغیرہ۔ایک اور سرخی دیکھئے ’’سروپ نگر قتل کیس میں لا پتہ ہاکر کا نہیں لگ سکا پتہ‘‘اس سے اردو صحافت میں زبان کے استعمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بعض مرتبہ املا کی غلطیاں لفظوں کی صوتی آہنگ تو نہیں البتہ اس کی ہیئت ضرور بدل دیتی ہیں ،مرکب الفاظ کو ان کی اصل شکل میں نہ لکھ کر انہیں صوتی پس منظر میں لکھ دیا جاتا ہے۔مثلا شان ہند ،جان من،سر دست کو شانے ہند،جانے من،اور سرے دست تک لکھ دیا جاتا ہے۔یہاں ’ے‘ کے بجائے اضافت /جری حالت میں ہی اسے لکھا جانا چاہئے تھا۔اس طرح کی غلطیوں سے نئی نسل کے املائی گمرہی کے شکار ہونے کا خطرہ ہے۔اس طرح کے ایک دو لفظ نہیں ہیں بہت سی لفظیات و تراکیب ہیں جن کا املا غلط لکھا جا رہا ہے۔یہ روش اردو صحافت کی زبان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
خبروں کی زمرہ بندی کے لحاظ سے بھی زبان کا استعمال دیکھنے کو ملتاہے، مقامی، عالمی، کھیل اور صحت کی خبروں کے ساتھ ہی ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے علمی و ادبی مضامین اور خصوصی رپورٹ وغیرہ میں کی زبان میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔عالمی خبروں،کھیل ،اور صحت میں انگریزی کی لفظیات کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جبکہ مقامی خبروں میں کی زبان سب سے زیادہ مسخ نظر آتی ہے،اس میں واحد اور جمع کے ساتھ ہی تراکیب میں بھی سب سے زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں۔اس کے بہت سے اسباب و وجوہ ہیں۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اب براہ راست اردو میں خبریں بہت کم لکھی جاتی ہیں ،زیادہ تر خبروں کا ہندی سے ترجمہ ہوتا ہے۔ راہ راست بہت کم خبریں اردو میں لکھی جاتی ہیں،چونکہ عملہ بھی کم ہوتا ہے اس لئے جملوں کی ساخت ،اور لفظوں کے انتخاب میں غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔جہاں تک ایسے اخبارات کا تعلق ہے جو محدود ہیں تو وہ ایجنسیوں اور گوگل ٹرانسلیٹ پر اپنا وجود رکھتے ہیں اور گوگل کا ترجمہ مشینی ہوتا وہ اسم ،فعل اور واحد و جمع بھی تمیز نہیں کرتی کیونکہ اردو تو احساس کی زبان ہے اور مشین اس سے عاری ہوتی ہے۔پہلے اردو اخبارات میں پروف ریڈر ہوا کرتے تھے مگر اب یہ چلن بھی ختم ہوجا رہا ہے،ایسے میں سب ایڈیٹر سے رہ جانے والی غلطیوں کی اصلاح اب خود قاری کو ہی کرنا پڑرہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS