ہند میں مذہبی آزادی پر امریکی رپورٹ

0

امریکہ جمہوریت، انسانیت، انسانی حقوق، مذہبی آزادی وغیرہ پر رپورٹیں جاری کرتا رہتا ہے۔ ان رپورٹوں کا پیش کیا جانا اور انہیں نافذ کرانے کی کوشش کرنا امریکی لیڈروں کے قول و عمل کی طرح ہوتا ہے۔ اس طرح کی رپورٹوں سے امریکہ یہ دکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں پر اس کی نظر ہے۔ مذہبی آزادی پر حالیہ رپورٹ سے بھی اس نے یہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ 2 جون، 2022 کو سالانہ بین الاقوامی مذہبی آزادی پر رپورٹ کے اجرا کے موقع پر امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کس طرح خطرے میں ہیں۔۔۔۔مثال کے طور پر ہندوستان میں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جہاں کئی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، ہم لوگوں اور مذہبی مقامات پر بڑھتے ہوئے حملے دیکھ رہے ہیں۔‘ امریکی رپورٹ میں دیگر ملکوں، مثلاً: پاکستان، افغانستان اور چین وغیرہ کا نام بھی شامل ہے۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ امریکہ ان ملکوںکے ساتھ ہندوستان کو کیوں کھڑا کر رہا ہے؟ یہ سوال جواب طلب ہے کہ کیا دیگر ملکوں میں بھی ہندوستان کی نئی امیج بن رہی ہے؟ آخر کتنے ممالک ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان میں سب ٹھیک ٹھاک ہے، اس کی اقلیتوں کو بھرپور آزادی حاصل ہے، سرکار، کورٹ اور میڈیا کا رول ان کے خلاف تفریق آمیز نہیں ہے ؟ یہ جاننا ضروری ہے، کیونکہ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے، اس دور میں ایک ملک کی اچھی امیج اس کی ترقی کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔ اچھی امیج سے ہی دیگر ملکوں کی اس ملک سے رشتہ مستحکم کرنے کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے، سرمایہ کار متوجہ ہوتے ہیں، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اس لیے یہ دیکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وطن عزیز ہندوستان کے گھریلو حالات کا اثر اس کی امیج پر تو نہیں پڑ رہا ہے؟ممکن ہے،کئی لوگوں کو یہ لگتا ہو کہ ان کے مذموم عمل کی رپورٹنگ اگر قومی میڈیا نہیں کر رہا ہے یا ان کے من چاہے انداز میں کر رہا ہے تو عالمی میڈیا بھی ایسا ہی کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرے گا؟ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر ہندوستان میں ہونے والے مذموم واقعات عالمی برادری سے بھی پوشیدہ نہیں رہیں گے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مدھیہ پردیش کے قصبے نیمچ میں ہونے والے واقعے جیسے واقعات سے وطن عزیز کی کیا امیج بنے گی؟
گزشتہ ماہ نیمچ میں 65 سالہ بھنور لال جین پر شبہ ہوگیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں تو ان سے پوچھا گیا تھا، ’ کیا تم مسلمان ہو؟‘ اور مسلمان ہونے کے شبہ میں ان کی پٹائی کی گئی۔ بھنور لال جین نے دم توڑ دیا۔ ان کے قتل کا الزام بی جے پی لیڈر دنیش کشواہا پر عائد کیا گیا۔ پولیس نے دنیش کشواہا اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قتل کا معاملہ درج کیا۔ اس وقت اس سوال کا اٹھنا فطری تھا کہ کیا مسلمان ہونے سے کوئی آدمی انسان نہیں رہتا؟ گزشتہ برسوں میں لنچنگ کے کتنے ملزمین کو سزا دی گئی؟ پہلے ذاتوں کے نام پر جنونیت نظر آتی تھی، ادھر مذہب کے نام پر زیادہ نظر آتی ہے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ امریکہ کیا کہتا ہے مگر اپنے ملک کے حالات پر غور ضرور کرنا چاہیے، صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نریندر مودی کا ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ نعرہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔
رہی بات امریکہ کی تو وہ کسی ملک کو بظاہر دوست بھی بتاتا ہے اور اسے دھونس میں رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے، کیونکہ وہ یہ برداشت نہیں کر پاتا کہ کوئی ملک اتنا خود مختار ہو جائے کہ اسے اس پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ ظاہر ہے، ہندوستان کی روس پالیسی کو قبول کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں اگر ہندوستان کی اقلیتوں کا خیال اسے آجاتا ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ہندوستان کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی سالانہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ 2021 پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ووٹ بینک کی سیاست کی جا رہی ہے۔ ہم اس بات پر زور دیں گے کہ حوصلہ افزا معلومات اور متعصبانہ خیالات پر مبنی تشخیص سے گریز کیا جائے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کے ساتھ اپنی بات چیت میں ہم نے وہاں کے مسائل کو اجاگر کیا ہے جن میں نسلی اور نسلی طور پر حوصلہ افزائی والے حملے، نفرت انگیز جرائم اور بندوق کی بنیاد پر تشدد شامل ہیں۔‘اس سلسلے میں امریکی حکومت کو جواب دینا چاہیے کہ اپنے سیاہ فام لوگوں کی حفاظت کے لیے اس نے ایسے کیا اقدامات کیے ہیں کہ آئندہ کسی سیاہ فام کے جارج فلوئیڈ یا ایرک گارنر بننے کا اندیشہ نہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS