زین شمسی
اب وقت آگیا ہے کہ جب اردو کی باتیں ہوں تو وہ صرف باتیں نہ ہوں بلکہ ایک لائحہ عمل کے ساتھ اردو پر تبادلۂ خیال ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح مسلمانوں کے پاس سے لیڈرشپ ختم ہوگئی، اسی طرح اردو کے پاس سے اس کے پاسبان غائب ہو گئے ہیں، اب یہ زبان صرف اور صرف اور سرکار کے مرہون منت ہے، یعنی اگر سرکاریں چاہیں تو اسکولوں اور کالجوں سے اردو زبان کی تدریس و تعلیم دونوں ختم ہو سکتی ہے۔ کبھی یہ وقت رہا ہوگا کہ اردو سے چھیڑچھاڑ کرنا حکومت کو مہنگا پڑگیا ہوگا، مگر اب صورتحال بالکل دوسری ہے۔ صرف ایک واقعہ یاد کیجیے جب کسی مال میں کسی پروڈکٹ کے پیکٹ پر عربی زبان میں اس کا نام لکھا ہوا تھا، تب ایک ٹی وی اینکر وہاں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی تھی کہ اردو میں اس کا نام کیوں لکھا ہے؟ اس کے دیکھا دیکھی دوسرے چینلوں نے اردو دشمنی میں اپنے پروگرام مرتب کیے۔ اردو کو بھی ودیشی زبان بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ نکل چکا ہے اور اسے بھی پاکستان بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔ کالج میں11ویں میں داخلہ کا جو فارم نکالا جاتا ہے، اس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ہندی لازمی ہے، اس کے بعد انگریزی یا اردو سبجیکٹ کا انتخاب کرنا ہے۔ ایسے میں اردو آبادی کے ساتھ سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ وہ اردو یا انگریزی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔اگر وہ اردو منتخب کرتی ہے تو اسے انگریزی چھوڑنی ہوگی جو اس کے مستقبل کی پڑھائی کو متاثر کرے گی اور اگر وہ انگریزی کا انتخاب کرتی ہے تو پھر اسے اردو چھوڑنی ہوگی جس سے اردو کا نقصان ہوتا ہے۔ اب اس سسٹم میں اردو کو کالج پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا جا رہا ہے۔اب یہ مجھے معلوم نہیں کہ زبان کے انتخاب میں ہندی کی لازمیت سرکار کی جانب سے ہے یا پھر کالجز یا یونیورسٹیوں نے اسے اپنے حساب سے طے کیا ہے۔ اب اگر آپ سوچیں کہ اردو کالج میں داخل ہی نہیں ہوئی تو پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا کہاں سے آئیں گے۔ کیا اس معاملہ میں کسی نے یا اردو کے کسی ادارے نے چھان بین کی ہے کہ داخلہ کے لیے یہ فرمان کیوں جاری کیا گیا، اگر یہ سرکاری احکام ہی ہے تو کسی نے سرکار سے اس کی شکایت کی ہے؟ اسی لیے میں نے کہا کہ اردو پر جب بات ہو تو سنجیدگی کے ساتھ، ورنہ نہ ہو۔
ان دنوں اردو کے رسم الخط پر لن ترانیوں کا بازار گرم ہے۔ اچھی بات ہے کہ اہل اردو کو اس بات کی فکر ستا رہی ہے کہ اردو سے اس کا رسم الخط چھینا جا رہا ہے۔ یہ فکر انہیں جشن ریختہ میں اردو کے مواد کو دیوناگری اور رومن میں لکھے جانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ فیس بک پر متعدد پوسٹ کا طوفان آیا ہوا ہے۔ کوئی ریختہ کو جی بھر کر گالیاں دے گیا اور کوئی اس کی اردو شناسائی کے گیت سنا گیا۔ جب کہ یہ ایک فضول سی بحث تھی، لیکن اردو والے،اردو کے لیے جب سرکار وں سے لڑنے کے قابل نہیں رہے تو صراف سے لڑنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔
اردو کے حالات کی اصل جانکاری حاصل کرنی ہو تو اردو کتابوں کے ناشروں سے رجوع کیجیے، جو شاید اب کم ہی تعداد میں بچ گئے ہیں۔ ان سے پوچھئے کہ ان کے پبلشنگ ہائوس ویران کیوں ہو گئے ہیں۔ کتنی کتابیں وہ سال بھر میں بیچ پاتے ہیں۔ اردو اخبارات کے مدیروں سے پو چھیں کہ ان کے اخبارات کا سرکولیشن ہزار سے بھی کم کیوں ہے؟ جب ہم اردو والے اردو کی کتابیں، اخبارات اور رسائل خریدنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تو کوئی اپنا پیسہ اردوبازار میں کیوں لگائے؟
اردو کا مواد کیا ہے، حب الوطنی ہے، بھائی چارہ ہے، پریم ہے، سیکولرازم ہے اور تھوڑا سا باشعور انسان بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اردو سے نابلد انسان اردو کے مواد کو پڑھ کر ہی اس سے دلچسپی یا محبت کرسکتا ہے۔ ایسے میں ریختہ نے اردو کو سہ لسانی فارمولے کے تحت مزید مستحکم کر دیا ہے۔
رہی بات اردو رسم الخط کی تو ریختہ نے اس کا بیڑہ نہیں اٹھایا ہے کہ وہ ہندوستان یا دنیا کو اردو سکھائے گا، اس کا کام لوگوں کو اردو دکھانا ہے اور وہ اردو کو دکھا رہا ہے۔ جہاں تک سکھانے کی بات ہے تو اس ویب سائٹ سے لاکھوں لوگ اردو اسکرپٹ سیکھ رہے ہیں۔ اگر یقین نہ ہو تو اس ویب سائٹ کے لرننگ پروگرام کو کھولئے۔ جشن ریختہ میں غیر اردو برادریوں کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ اردو واقعی ایک بہترین زبان ہے اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔
صرف نکتہ چینی سے کام نہیں چلنے والا۔ بھارت کی اتنی بڑی فلم انڈسٹری اردو کی بنیاد پر کھڑی ہوئی۔ اربوں کھربوں کے بزنس کے پس پشت اردو ہی ہے، لیکن کبھی کسی نے یہ کوشش کی کہ وہ سینسر بورڈ کو ایک خط لکھ کر یہ پوچھے کہ جناب عالی اردو میں بننے والی فلم کا سرٹیفکیٹ آپ ہندی میں کیوں دے رہے ہیں؟یہاں تک کہ فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی اپنی فلم کو اردو سرٹیفکیٹ دینے سے کتراتے ہیں۔ وہ تو صرف ناصر حسین تھے جو اپنی تمام فلموں کا اردو سرٹیفکیٹ لیتے تھے اور اسے شان سے ہٹ کراتے تھے۔فلموں نے اردو کے مواد کا زبردست استعمال کیا۔
اردو کے لیے اردو والے کیا کر رہے ہیں؟بس اردو والوں کو یہی بات سوچنی ہے۔ اگر اردو کے لیے کچھ کرنا ہے تو بات کیجیے، دوسرے کیا کررہے ہیں اس پر بحث فضول ہے۔10-15سال قبل اسمٰعیل مرچنٹ کی ایک ہالی ووڈ فلم ’’محافظ‘‘ آئی تھی، اس میں اس بات کا اشارہ دے دیا گیا تھا کہ اردو اب ہندی کے ہاتھوں ہی محفوظ رہ پائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیوناگری میں لکھی جانے والی ہر چیز کو ہندی والے ہندی تسلیم کرنے سے پرہیز نہیں کرتے اور ہمارے یہاں اب تک تلفظ اور ہجے کی ہی بات چلتی ہے۔ بہار کی اردو خراب ہے، حیدرآباد کی اردو اردو ہی نہیں ہے، کشمیر ی معیاری اردو نہیں بولتے۔ اردو کو صرف دہلی اور لکھنؤ کی ہی جاگیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا، میرؔ اور غالبؔ دیوناگری میں بکنے لگے۔ایسا نہ ہو کہ اردو کاماضی بھی ریختہ ہو اور مستقبل بھی۔ کچھ کیجیے جناب عالی! ورنہ ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان‘‘کی ہے کو بھی لوگ دیوناگری میں ہی پڑھنے لگیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]