اردو اور ہندی ایک ہیں تو ان کارسم الخط جدا کیوں؟: خواجہ عبدالمنتقم

0
اردو اور ہندی ایک ہیں تو ان کارسم الخط جدا کیوں؟: خواجہ عبدالمنتقم

خواجہ عبدالمنتقم

کبھی کبھی جذبۂ اخوت تو کبھی کسی کی خوشنودی یا مصلحتاً یہ کہا جاتا ہے کہ اردو اور ہندی دونوں بہنیں ہیں۔اگر دونوں بہنوں کو سگی بہنیں بھی مان لیا جائے تو بھی دونوں بہنوں کا الگ الگ قانونی وجود ہے۔ ان دونوں زبانوںکا رسم الخط جدا ہے۔ان کے ذخیر ۂ الفاظ کا بیشتر حصہ ایک دوسرے سے جدا ہے۔ البتہ آسان اردو اور آسان ہندی کو ایک زبان کہا جاسکتا ہے بشرطیکہ ان دونوں کو اپنے اپنے ر سم الخط میں لکھا جائے۔ اپنے اپنے رسم الخط میں لکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ان کے الگ الگ وجود کو تسلیم کر لیا۔ ویسے بھی جب دو زبانوں کا رسم ا لخط بالکل جدا ہو تو انہیں ایک زبان کیسے مانا جاسکتا ہے؟
بھارت کے آئین کے 8ویں شیڈیول میں اردو اور ہندی کو الگ الگ درج کرنا اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے کہ دونوں زبانوں کی حیثیت جدا ہے۔ ہمارا آئین بھی الگ الگ زبانیں بولنے والے اورالگ الگ رنگ وروپ والے تمام شہریوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ ان میں سے ہرایک کو مساوی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس طرح ہی ایک متحدہ سیکولر قوم وجود میں آتی ہے۔جس طر ح کوئی زبان کسی پر تھوپی نہیں جا سکتی،اسی طرح کسی زبان کا رسم الخط ختم کر کے دوسرا ر سم الخط بھی تھوپا نہیںجاسکتا۔ ہمارا آئین بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔آئین کی دفعہ29میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ تمام شہریوں کو اپنی الگ جداگانہ زبان،رسم الخط یا ثقافت کو محفوظ رکھنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔اگر انھیں اس حق سے محروم کیا جاتا ہے تو ایسا کرنانہ صرف آئین کی روح کو زک پہنچانے بلکہ ان تمام بین الاقوامی دستاویزات کی، جن میں لسانیاتی و ثقافتی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا جیسے اقوام متحدہ کا چارٹر ، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، 1948، بین الاقوامی منشور برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق، 1966، قومی یا نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق سے متعلق اعلامیہ، 1992،اقوام متحدہ کادو ہزار سالہ اعلامیہ وغیرہ ۔
بعض اوقات تو رسم الخط بدلنے سے اس زبان کا وجود ہی یکدم یا بتدریج ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ سوچ ہے تو آج اردو کی باری ہے تو کل دیگر زبانیںاس کی زد میں آئیں گی۔ یہ کہنا کہ دونوں بہنیں ہیں سیاسی اعتبار سے تو درست ہوسکتا ہے لیکن لسانیاتی نقطۂ نظر سے درست نہیں،البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دونوں زبانیںبہنوں جیسی ہیں اور اگر دونوں ایک دوسرے کے قریب آکر شیرو شکر کی صورت اختیار کر لیں تو محبان ہندی و اردو کو ایک دوسرے کے اور قریب لایا جاسکتا ہے۔
کسی بھی زبان کا رسم الخط، اس کی، اس کے بولنے اور لکھنے والوں کی شناخت ہوتا ہے اور اگر ایک ہی رسم الخط طویل عرصے سے چلا آرہا ہوتو وہ ملک کی قابل قدر ثقافت کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کا تحفظ ایک آئینی ذمہ داری کی شکل اختیار کرلیتا ہے چونکہ آئین کی دفعہ51الف، جو بنیادی فرائض سے متعلق ہے، اس میں یہ بات صاف صاف کہی گئی ہے کہ بھارت کے ہر شہری کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ملک کی ملی جلی ثقافت کی قدر کرے اور اسے برقرار رکھے۔ جیسا کہ اوپر درج کیا گیاہے کہ آئین کے 8ویں شیڈیول میں 22زبانیں شامل ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے اور ہر زبان کی اپنی اپنی شناخت اور اپنا اپنا رسم الخط ہے۔ صرف اردو ہی نہیں اس بات کی تاریخی اور آثاریاتی شہادت موجو د ہے کہ سندھی گزشتہ 14صدیوں سے عربی رسم الخط میں ہی لکھی جاتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب1967میں اسے آئین کے 8ویں شیڈیول میں شامل کیا گیا تو اس وقت بھی وہ عربی رسم الخط میں ہی لکھی جارہی تھی اور تاہنوز لکھی جارہی ہے۔اردو کی طرح سندھی زبان کے عربی رسم الخط کو بھی جو ہمارا ثقافتی ورثہ ہے اور ہماری مشترکہ تہذیب وثقافت کا جزولاینفک، دیوناگری میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وقتاً فوقتاً ایسی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔
اردو اور ہندی کو قریب تر لانے کا راستہ آئین کی دفعہ 351 ہے جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے۔ اس میں واضح الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ سنسکرت اور اور 8ویں شیڈیول میں درج بھارت کی دوسری زبانوں (بشمول اردو) سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو اور مالامال کیا جائے۔
دیوناگری تو ایک پھلتا پھولتا رسم الخط ہے۔ اس کے لیے کسی امدادی مہم کی ضرورت نہیں۔ اس کا دائرہ تو پہلے سے ہی بہت وسیع ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ عربی و فارسی رسم الخط کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ساتھ ہی جن زبانوں کا دیوناگری سے مختلف رسم الخط ہے انہیں بھی تحفظ فراہم کیا جائے۔ سندھی یا اردو کے رسم الخط کو بدلنے کی بات کرنا ہماری ملی جلی ثقافت کو زک پہنچانے والی بات ہے اور یہ ہماری اس ملی جلی تہذیب پر ضرب شدید ہوگی جس پر ہم سب کو ناز ہے۔ اگر کچھ لوگ اس ضرب شدید کو ضرب فتح سمجھیں تو یہ ان کی کج نظری اور کج روی ہوگی۔ اگر بھارت کے آئین کی تمہید میں درج پیغام اخوت اور مساوی انصاف کو عملی جامہ پہنانا ہے تو کسی بھی زبان کے رسم الخط سے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے چونکہ کسی کثیراللسان ملک میں لسانی تکثیریت وہاں کی ثقافتی وابستگی کا مظہر ہوتی ہے اور باہمی میل جول و یگانگت کی مضبوط علامت ونشانی۔ دریں صورت ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں جس میں 22بڑی زبانیں ہیں اور 1600سے زیادہ چھوٹی زبانیں اور بولیاں، یہی قرین مصلحت ہوگا کہ کسی بھی زبان کے رسم الخط سے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے اور بہتر یہی ہوگا کہ زبانوں سے متعلق ماضی میں پیدا ہونے والے تنازعات اور ہنگامہ آرائی کے واقعات سے سبق لیا جائے۔
ہمارا ملک زبان اور مذہب کے معاملے میں ایک حساس ملک ہے اور خود حکومت ہند کی شائع کردہ ایئربک میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ایسی صورت حال نہ پیدا ہونے دی جائے۔جب جب بھی حکومت کی طرف سے ہندی کے اضافی استعمال کی بابت سرسری طور پر ہی ذراسا اشارہ کیا گیا تو ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہندی مخالف آوازیں اٹھنے لگیں اور حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑی کہ ہندی کسی پر تھوپی نہیں جاسکتی۔ کبھی کبھی کچھ لوگ اس طرح کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدل کر دیوناگری رسم الخط اختیار کیا جائے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لسانیاتی امور کی بالکل جانکاری نہیں ہے یا ان کی ذہنیت تعصبانہ ہے۔ رہی بات ان محبان اردو کی جو اردو پڑھنا یا لکھنا نہیں جانتے مگر ہندی جانتے ہیں تو وہ اپنی پسند کی اردو تخلیقات کو دیوناگری میں نقل حرفی (transliteration)کی شکل میں پڑھ سکتے ہیں۔جہاں تک اردو کے رسم الخط کے تحفظ کی بات ہے، وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے ختم کرنے کا حکومت کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS