نئی دہلی (پریس ریلیز) کل ہند انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کی جانب سے جاری آن لائن قومی مذاکرے کے سلسلے کے تحت آج ’’جھارکھنڈ میں اردو زبان:مسائل وامکانات ‘‘ کے موضوع پر قومی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک اور بیرون ملک سے کثیر تعداد میں اردو کے اساتذہ اور ادیبوں نے شرکت کی ۔ مذاکرے کے صدر پروفیسر ابو ذر عثمانی سابق صدر شعبہ اردو ررانچی یونیورسٹی نے جھارکھنڈ میں اردو کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر چہ ریاست میں اردو کو مختلف حوالوں سے مسائل درپیش ہیں لیکن ہم اگر جمہوری طریقے سے حکومت تک اپنے مسائل سے متعلق آواز پہنچا سکیں تو یقینا ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت اردو مخالف نہیں ہے۔ ہمیں اپنی کاوشوں کو بااثر بنانا ہوگا۔
مذاکرے کے مہمان خصوصی اور معروف ناقد ومفکر پروفیسر احمد سجاد سابق صدر شعبہ ، رانچی یونیورسٹی نے تفصیل سے اردو کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اردو والوں کو دستیاب موجودہ سہولتوں سے استفادے پر زور دیا اور کہاکہ ہمیں اگنو (IGN0U)اور این آئی او ایس (NIOS)جیسے بڑے قومی تعلیمی اداروں میں موجود اردو تعلیم کے مواقع کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اردو والوں کے لیے ان اداروں میںتعلیم بڑی گنجائشیں موجود ہیں۔ اپنے افتتاحی کلمات میں کل ہند انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کے سکریٹری پروفیسر شہاب عنایب ملک نے آزادی کے بعد اردو کے جمہوری حقو ق کی پامالی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو تنگ نظر سیاست کی شکار رہی ہے اور اس کے حقوق کی بازیابی کے لیے ہمیں اپنی آواز زیادہ مضبوطی سے اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
کل ہند انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کے کار گزار صدر پروفیسر انور پاشا ، سابق چیئر مین سینٹر آف انڈین لنگویجز ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جھارکھنڈ میں اردو کے فروغ کے لیے لازمی ہے کہ مختلف سطحوں پر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کی خالی اسامیوں کو پرکیا جائے اور ریاست میں حکومت کی جانب سے اردو ڈائرکٹوریٹ ، اردو اکادمی وغیرہ جیسے اہم ادارے قائم کیے جائیں۔ پروفیسر انور پاشا نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی جھارکھنڈ میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آئے گا۔ کیوں کہ اس سلسلے میں ہماری انجمن سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے رابطے میں ہے۔
مذاکرے کے مہمان شرکا میں پروفیسر منظر حسین ، سابق شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی نے کہا کہ اگر چہ ریاست میں اردو کے سلسلے میں حالات دشوار ہیں لیکن ہم ہرگز مایوس نہیں ہیں۔ اردو طبقے کی جدو جہد رنگ لائے گی اور مسائل حل ہوں گے۔ دوسرے مہمان پروفیسر سرورساجد نے کہا کہ ہمیں اپنا محاکمہ کرنا چاہیے کہ ہماری جانب سے کیا کوتاہیاں ہیں اور اردو کی بقا اور فروغ کے لیے ہم کتنے سنجیدہ ہیں۔ ’’عالمی فلک ‘‘ دھنباد کے ایڈیٹر جناب احمد نثار صاحب نے کہا کہ اردو کی بقا کے لیے ہم اردو والوں کا سرگرم ہونا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر مبین قریشی نے اسکولوں کی سطح پر اردو تدریس کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اسکولوں کے معیار سے ہی کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اردو تعلیم کا معیار وابستہ ہے ۔
مذاکرے کی نظامت کے فرائض بے حد خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہوئے پروفیسر زین رامش ، سابق صدر شعبہ اردو ونوبابھاوے یونیورسٹی ہزار ی باغ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ کل ہند انجمن اساتذہ اردو ہند کی نئی قیادت کی سرگرمیاں حوصلہ افزا ہیں۔ اخیر انجمن کے قومی کوآرڈی نیٹر پروفیسر محمد کاظم نے جھارکھنڈ میں اردو کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
جھارکھنڈ میں اردو اکادمی کا قیام جلد ہو گا : پروفیسر انور پاشا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS