ملک کے ایک باوقار ادارے یوپی ایس سی نے پچھلے دنوں اس سال کےسول سروسز کا لسٹ شایع کیا۔اس میں ملک کی آبادی کے بیس فیصد والی مسلم طبقہ کی ایک قلیل تعداد (شاید 3فیصد کے قریب) ہی نے اس سال منتخب ہوئے فہرست میں جگہ پائ ہے۔یہ بلاشبہ ملک کے اس امتیازی مقابلہ جاتی امتحان میں مسلم امیدواروں کے لۓ ایک حوصلہ شکن واقعہ ہے۔اگرچہ عام لوگوں بشمول مسلم اقلیتی فرقہ کا اس ادارے پر بحثیت مجموعی کافی حد تک اعتبار رہ چکا ہے اور شازونادر ہی اس ادارے کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھی گئی ہو لیکن اس ادارے کی سو فیصد غیر جانبداری قطعی اور کلی طور صیح بھی نہی کہلائی جا سکتی ہے۔میرا ملک کے اس اعلےا ادارے کی شفافیت اور غیر جانبداری پر ہمشیہ ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔میں ذاتی طور اس ادارے کی غیر جانبداری اور ناانصافی کا شکار ہوا ہوں۔قریب چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا جب میں ملک کے اس ادارے کے روبرو ایک پوسٹ کے لۓ پیش ہوا۔ کواپریٹیو اور کمپنی افیسرس محکمہ میں اسسٹنٹ رجسٹرار کواپریٹیوز کی نشستوں کو پر کرنے کے لۓ شارٹ لفٹنگ کی بنیاد پر زبانی انٹرویو کے لۓ بلایا گیا اور چار خالی آسامیوں کے لۓ ملک بھر سے صرف 16امیدواروں میں سے انتخاب کرنا تھا۔حسب توقع اس انٹرویو پینل میں کمیشن کے ذی وقار اور اعلےا پایہ کے لوگ ہی ممبر ہوسکتے تھے۔میں ایک مسلم امیدواروں تھا اور میرا تعلق کشمیر سے تھا۔انٹرویو میں متعلقہ پوسٹ کے لۓصلاحیتوں کی جانچ کرنے اور عہدہ سے متعلق میری علمیت جانچنے کے بجائے انٹرویو پینل میں براجمان کمشن کے معزز ممبران مجھے سیاسی انٹرویو لینے لگے۔مرارجی ڈیسائ کی زیر قیادت جنتا پارٹی کی حکومت میں ہندوستانی عوام خصوصا مسلمانوں میں ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ اب ملک میں انصاف کا دورہ دورہ ہوگا لیکن جب اس کی زمینی سطح پر پرکھائ کا وقت آیا تو سب سیراب ثابت ہوا۔ مجھے 370 اور شیخ محمد کے متعلق سوالات کۓ گۓ۔مرحوم شیخ محمد عبداللہ اسوقت 1975 کے اندرا–عبداللہ اکارڈ کے نتیجہ میں ریاست جموں وکشمیر کے وزیر اعلی کی کرسی پر براجمان تھے۔ بہر حال نتیجہ جو نکلنا تھا وہی نکلا۔ ایک غریب اور محنتی لڑکا تعصب اور نا انصافی کا شکار ہوا۔
یہ تب کی بات تھی۔آج کی تو روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔آخر انسان تو بشر بھی ہے اور ذی حس بھی۔اپنے ارد گرد کے ماحول کا اثر لازما اپنے اوپر لیتا یے۔
قاضی سلیم الرشید گاندربل کشمیر