ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں جہاںجہاں جمہوری نظام ہے، وہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اور سماجی بنیادوں پر تکرار، بحث ومباحثہ اور باہمی تصادم، الزام تراشی، جواب وصفائی ایک عام بات ہے۔جمہوری نظام حکومت میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکمراں جماعت کے اقدامات پر سوال اٹھاتی ہیں۔ اس پر تنقید کرتی ہیں۔ خلاف توقع فیصلوں پر مظاہرہ کرتی ہیں۔ جب ایوان کا اجلاس ہوتا ہے تو اس میں بھی کارروائی رو ک کر حالیہ اور سنگین نکات پر بحث کرانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ کام کا بائیکاٹ، مظاہرہ سب ہی کچھ کرتی ہیں۔ یہ دنیا کی جمہوری تاریخ کی ایک عام بات ہے۔ ہمارے ملک میںبھی پارلیمانی اجلاس نیز ریاستی اسمبلیوں کے اجلاس سے قبل اخبارات و دیگر میڈیا ذرائع پر یہ بات عام طور پر شائع و نشر ہوتی ہے کہ اجلاس ہنگامہ خیز ہوگا۔ اپوزیشن حکومت کو جن نکات پر گھیرنے کی کوشش کرے گااس کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے، کیونکہ ایک صحت مند جمہوری نظام میں اپوزیشن کی یہ سیاسی، سماجی، اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرے اور حکومت کی آئینی و حکومتی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان سوالا ت کے بارے میں اپنا موقف واضح کرے۔ اپوزیشن سمیت پورے ملک کو اپنے اقدامات سے واقف کراتے ہوئے اسے مفادعامہ میں اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے مطمئن کرے۔ حالیہ دنوںمیں ہمارے ملک میں ایک بڑی سرمایہ دار کمپنی اڈانی گروپ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ ایسے تشویشناک انکشافات ہوئے جس سے نہ صرف اس گروپ (کمپنی) کی درجہ بندی زوال پذیر ہوئی بلکہ اس سے ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرا ت مرتب ہونے کا خطرہ بڑھ گیا۔ اس معاملہ کو اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمانی اجلاس میں زبردست طریقہ سے اٹھایا۔ خوب شور شرابہ ہورہا ہے۔ کانگریس سمیت درجنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ چونکہ یہ پورے ملک کی معیشت کا معاملہ ہے نیز اس میں وزیراعظم کی پشت پناہی کا بھی الزام عائد کیاجارہا ہے تو اس معاملہ کی سنجیدگی سے تحقیق وتفتیش کرائی جائے۔ اس کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) تشکیل دی جائے اور پورے معاملہ کی تحقیق کرکے حقائق کو ملک کے سامنے پیش کیا جائے، الزامات کی تردید کی جائے۔ اگر اس معاملہ میں کسی طرح کی قانون شکنی یا جانبداری برتی گئی ہے، کسی کو بے جا طورپر فائدہ پہنچایاگیا ہے تو اس سے باز پرس کی جائے اور قصورواروں کے خلا ف قانونی طورپر کارروائی کی جائے۔
حزب اختلاف کا یہ بھی مطالبہ ہے اور جو کہ بجا لگتا ہے کہ چونکہ معاملہ براہ راست وزیراعظم سے وابستہ ہے، اس لیے قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نگاہیں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ اس میں حکومت کو مثبت موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ماضی میں متعدد بار ایسا ہوچکا ہے کہ بدعنوانی، بدنظمی، قانون شکنی، آئینی و جمہوری قدروں کی پامالی کی شکایات و الزامات پر حکومت کے ذریعہ پارلیمانی سطح پر انکوائری کرانے یا کسی اہم مسئلہ کے تصفیہ، کسی نئے قانون کو وضع کرنے سے قبل عوامی رائے دریافت کرنے کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ یہ حکومت وقت کی آئینی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی فریضہ بھی۔ لیکن جس طرح حالیہ دنوں میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ہورہی ہے، اس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ حزب اقتدار کی وجہ سے بھی پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہے، ایوان کی کارروائی معطل کرنا پڑرہی ہے۔ کانگریس سمیت حزب اختلاف کی جماعتیں اڈانی معاملہ میں حکومت کے موقف سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے اس کی تحقیق کرائے جانے کا مطالبہ کررہی ہیں تو وہیں بی جے پی سمیت حزب اقتدار کی جماعتیں کانگریسی لیڈر راہل گاندھی کے بیرون ممالک میں دیے گئے بیان کو ملک کی بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے اس پر کانگریس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اسی مطالبہ پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہورہا ہے ۔ جہاں تک راہل گاندھی کی تقریر کی بات ہے تو راہل گاندھی ہی نہیں ہرہندوستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ بیرون ممالک میں اندرونی معاملات پر لب کشائی نہ کرے، لیکن حکومت کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی کارکردگی میں کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے کہ بین الاقوامی سطح پر وہ منفی توجہ کا باعث بن جائے۔ اس کے ساتھ ہی الزامات کے ازالہ کے لیے خاص طورپر جب وزیراعظم کی جانب انگشت نمائی ہونے لگے تو حکومت کو فوری طورپر اس کے سد باب کے لیے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر اس معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہیے۔ تاکہ ایک صحت مند جمہوری نظام میں آئینی قدریں برقرار رہیں اور کسی بھی سطح پر کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے۔
[email protected]
پارلیمنٹ میں ہنگامہ اور آئینی قدریں!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS