فلسطین: کیا آگ سے کھیل رہے ہیں محمودعباس

0

مغربی ایشیا اور عالمی سیاست کا مرکز مسئلہ فلسطین گزشتہ 70سال سے جس شدت اورحدت کے ساتھ سیاست اور سفارت پر حاوی ہے وہ نئے تیور کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے دنوں عالمی سیاست میں جو بھونچال آیا ہے اس کے اثرات مغربی ایشیا کی سیاست پر واضح طورپر محسوس کئے جارہے ہیں۔
فلسطین کی سیاست میں اگرچہ عالمی برادری سب سے زیادہ اہمیت تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او کو دیتی رہی ہے۔ مگر کئی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جوکہ اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کے حق میں ہے اور عالمی سطح پر مصروف کئی ممالک ان تنظیموں کے پیروکار اور حامی ہیں۔ ان میں حماس کا نام سب سے اول ہے۔ حماس مسلح جدوجہد کی حامی ہے۔ خطے کی کئی طاقتیں اور پلیئر حماس کو درپردہ حمایت دیتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں اورممالک کھلم کھلا حماس اور دیگر شدت پسند جماعتوں کو حمایت دینے میں تامل نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں مغربی کنارے پر جو سرگرمیاں اور تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر کارروائیاں اسرائیل کی سرکار نے انجام دی ہیں اس کے اثرات واضح طورپر دکھائی دینے لگے ہیں۔ مغربی ایشیا میں مسلم اور عرب ممالک پرانی تلخیوںاور ترشیوں کو بالائے طاق رکھ کر افہام وتفہیم کی جانب بڑھ رہے ہیں اس کا اثر جدوجہد آزادی فلسطین سے وابستہ تنظیموں اوراکائیوں پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی کنارے کو یہودی آبادی سے بھر دینے کی اسرائیلی حکومتوں کی چالوںکے درمیان مغربی ایشیا میں سرگرم اور کسی حد تک مقتدر پی ایل او کے سیاسی بازو الفتح کے سربراہ محمود عباس نے اسی افہام وتفہیم کوآگے بڑھاتے ہوئے اپنے سخت مخالف حماس کے سربراہ اورلیڈرشپ کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرنا شروع کردیا ہے۔ اسرائیل جوکہ مغربی کنارے میں ممکنہ فلسطینی ریاست کے امکان کو ختم کرنے کی پالیسی کے تحت ایک زمانے میں اردن کے اقتدار میں رہے مغربی کنارے کو اپنی صیہونی ریاست کا مستقل حصہ بنانے کے لئے ہر ممکن جائز ناجائز، قانونی غیر قانونی، انسانی غیرانسانی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں مغربی کنارے کو فوکس کرتے ہوئے نئی نتین یاہو سرکار نے فوجی کارروائیاں مغربی کنارے میں تیز کردی ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ تشدد پسند اور شدت پسند بنیاد پرست عناصر مغربی کنارے میں تخریبی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی اس کارروائی کا مقصد ظاہر ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی کمر توڑنا ہے۔ پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین کے قانونی قضیہ کو ختم کرنے اور اس سے جڑ ے ہوئے معاملات کو حل کرنے کے لئے عالمی عدالت سے رائے لینے کی قرارداد کے پاس ہونے کے بعد اسرائیل اور اس کے حواری ممالک حواس باختہ دکھائی دے رہے ہیں۔ ان طاقتوںکو یہ لگتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی عدالت سے رجوع ہونے کے بعد کئی قانونی پیچیدگیوںکو دعوت دے سکتا ہے۔ الفتح جوکہ مغربی کنارے میں مقتدر ہے چاہتی ہے کہ اس علاقے میں اسرائیل حکومت کے ذریعہ بنائی جارہی یہودی بستیوں کی تعمیر کو موقوف کیا جائے۔ خیال رہے کہ اس علاقے میں یہودی بستیوںکی تعمیر قانو نی طورپر غیر مناسب اورناجائز ہے۔ مگر موجودہ سرکار نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے مغربی کنارے میں ناجائز بستیوںکی تعمیر کو تیز کردیا ہے اورپچھلے دنوں تو ان بستیوںکو قانونی طورپر منظوری دینے کی قرارداد بھی زیرغور تھی مگر امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے اس قرارداد کو فی الحال موقوف کردیا ہے۔ مگر ان سفارتی کوششوں کے باوجود مغربی کنارے میں کشیدگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ہر روز اسرائیلی افواج گھروںمیں گھس کر دہشت گردوں کی تلاش میں ایسی بربریت آمیز حرکتیں انجام دے رہی ہیں جس کی بازگشت پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے حماس کے ساتھ تعاون کے اشارے دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ محمودعباس کی پالیسی میں یہ بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت پسند جماعتیں، تنظیمیں اور طاقتیں آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا راستہ اختیارکریںگی۔ پچھلے دنوں مصر کی مداخلت سے حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے افہام وتفہیم کی کوششیں کی تھیں اور کئی سطح پر کچھ تجاویز بھی زیرغور آئی تھیں۔ حماس جس کو شام، ایران اور حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے مسلح جدوجہد کی حامی ہے۔ غازہ میں اس کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل کے طیارے اورمیزائل حماس کی کارروائیوںکا مقابلہ کرنے کے لئے اکثر غزہ پر ہوائی حملے کرتے رہے ہیں۔ مگر جس طریقے سے مغربی کنارے کو ان کارروائی کا مرکز بنایا گیا ہے۔ اگرچہ قانونی طورپر حماس مغربی کنارے میں سرگرم نہیں ہے مگر اس کے باوجود غیراعلانیہ طورپر حماس کے لڑاکے اور کارکنان اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسلامک جہاد نام کی تنظیم اس خطے میں سرگرمیاں بڑھا رہی ہے۔ یہ کارروائیاں انہی کے خلاف ہیں مگر بچوں، عورتوں کو جس طریقے سے مغربی کنارے میں نشانہ بنایا گیا ہے اس سے فلسطینی جدوجہد سے وابستہ تنظیموں، افراد اورجماعتوں کے اس استدلال کو تقویت ملتی ہے۔ اسرائیل عام شہری کو صدمات اور آلام سے دوچار کرنے کے لئے اس قدر بے دریغ کارروائی کرتی ہے کہ اس کو انسانیت کا کوئی لحاظ نہیں رہتا۔ پچھلے دنوں کئی مقامات پر اور کئی سطح پر فلسطینی جدوجہد سے وابستہ ارکان اورجماعتوں میں مذاکرات اورتعاون کی خبریں آتی رہی ہیں مگر سرکاری طورپر یا برملا طورپر یہ فریق اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ ان کے درمیان کوئی تعاون ہے۔
پچھلے دنوں میڈیا میں خاص طورپر عرب میڈیا میں اس رجحان کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔2007میں انتخابات کے بعد حماس اور فلسطینی اتھارٹی جس پر الفتح کا قبضہ ہے، کے درمیان ز بردست اختلاف رائے اورٹکرائو کی نو بت آئی تھی۔ کئی مقامات پر حماس،الفتح اور دیگر مسلح تنظیموں کے کارکنوںکو فوجی کارروائیوں میں مرنے کی خبریں بھی سنائی دی تھیں۔ اسرائیل میں نئی سرکار کے قیام کے بعد اب پرامن اور سیاسی اورسفارتی جدوجہد کی حامی الفتح بھی محسوس کرنے لگی ہے کہ شاید یہ طریقہ کار اسرائیل کے سخت گیر عناصرحکمرانوںکو راضی کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ الفتح کے اراکین جوکہ فلسطینی اتھارٹی کے حامی ہیںمغربی کنارے پر حماس اوراسلامی جہاد کو تعاون نہیں کر رہے تھے بلکہ ان دونوں تنظیموں اور مسلح کارکنوںمیں کئی مرتبہ جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ 2007کے بعد سے ان جھڑپوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اسرائیل سے قانونی مدد اور اقتصادی تعاون کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی کے مسلح کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حماس اور اسلامک جہاد کے خلاف تعاون کرتے ہوئے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ مگر پچھلے دنوںکے بدلتے ہوئے حالات میں فلسطینی اتھارٹی کو اس بات کے لئے مجبوکردیا کہ وہ اسرائیلی حکام، فوج اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون موقوف کردیں جس پر امریکہ نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ذریعہ اٹھایا گیا یہ جوکھم محمود عباس کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوگا۔ حماس ایک مسلح بلکہ جدید ہتھیاروںسے مسلح انتہائی سخت موقوف کا حامل گروپ ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی جوکہ اقتصادی طورپر کمزورہوتی جارہی ہے وہ حماس کے جنگجوئوں کے عزائم اور کارکردگی کو کس حد تک برداشت یا قابو میں رکھ پائے گی یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS