یوپی اسمبلی انتخابات اور مسلمان

0

شاہد زبیری

یوپی اسمبلی انتخابات میں اب سال نہیں چند ماہ باقی ہیں اور انتخابی ہلچل تیز ہوگئی ہے، حکمراں جماعت بی جے پی اپنے تمامتر داخلی اختلافات، انتشار اور کورونا کے بحران کے دوران اقتدار کی بقاکیلئے سب سے زیادہ سرگرم اور فعال دکھا ئی دے رہی ہے، مختلف چیلنجز کے باوجود 300سے زائد سیٹوں پر کا میابی کا دعویٰ کررہی ہے اور اس دعوے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہندوتو اور سماجی انصاف کے ایجنڈے کے ساتھ مودی کے بعد سب سے بڑے ہندوتو کے چہرہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یو گی کی قیادت میں انتخابی میدان میں اترنے کی اس نے پوری تیاری کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ یو گی خود بی جے پی میں اپنے سیاسی حریفوںکو شانت کرنے میں مصروف ہیں، ان میں سے ایک سابق آئی اے ایس افسر اروند کمار شرما جو یوپی کے وزیراعلیٰ کا خواب دے کر یو پی میں بھیجے گئے تھے، کو بی جے پی کا ریاستی صدر بناکر یوگی کی ایما پر برف میں لگا دیا گیا ہے تو وزیراعلیٰ کی شدید خواہش رکھنے والے اپنے سب سے مضبوط سیاسی حریف اور نائب وزیراعلیٰ کیشو موریہ کو شیشہ میں اتارنے کیلئے اپنے چار سالہ اقتدار میں پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ ان کے گھر جا پہنچے، بہانہ تھا کیشو موریہ کے بیٹے کی شادی کا۔وزیراعلیٰ یوگی اب اپنے اس مقصد میں کتنے کامیاب ہو تے ہیں اور بی جے پی اپنی کامیابی کے دعوے میں کتنی کھری اترتی ہے یہ تو وقت ہی بتا ئے گا۔ تاہم بی جے پی اپنی کامیابی کو یقینی بنا نے کیلئے ہر حربہ استعمال کرسکتی ہے، اس لیے کہ 2022کی کامیابی پر ہی2024کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اس کیلئے سنگھ پریوار بھی جی جان سے بی جے پی کی مدد کرنے میں لگا ہوا ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بی جے پی بنگال میں شکست کھانے کے بعد اپنی ساکھ اور دلّی کے اقتدار کو بچانے کیلئے بہت زیادہ فکر مند ہے ۔ بی جے پی کی بڑی پریشانی جہاں کورونا کی وبا جھیلنے والے عوام کی ناراضگی اور غصہ ہے تو غیر جاٹو ہندو پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کو اپنے پا لے میں رکھنا بھی اس کیلئے سخت آزمائش ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ کی تفریق کے بغیر 19فیصد مسلم ووٹ نے بھی اس کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ بی جے پی کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ بنگال میں اگر 30 فیصد مسلم ووٹ ترنمول کی جھولی میں نہیں جا تے تو بی جے پی کی جیت یقینی تھی۔ بی جے پی نے اس ووٹ کو منتشرکرنے کیلئے پہلی مرتبہ 9مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے، اس کو امید تھی کہ کچھ مسلم ووٹ مسلم امیدواروں کے کھاتے میں چلے جائیں گے اور کچھ کانگریس اور کمیونسٹو ں کے علاوہ مسلم تنظیموں میں تقسیم ہوجائیں گے لیکن ایسانہیں ہوا۔ پوری طاقت جھونکنے اور انتخابات کوفرقہ وارانہ رنگ دینے کی تمامتر کوششوں کے بعد بھی بی جے پی بنگال میں کامیاب نہیں ہوپائی ۔ یو پی میںبی جے پی کیلئے اگر کچھ راحت کی بات ہے تو وہ اپوزیشن جماعتوں کا کمزور ہو نا اور ان کا منتشر ہو نا ہے۔ ہندوتو کا ترپ کا پتہ بھی اس کے پاس ہے جس سے وہ اب تک کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بی جے پی آسانی سے 300سے زائد سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
اس سیاسی منظر نامہ میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں اور کیا حسب سابق وہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے نام پر پھر جھانسہ میں آجائیں گے یا کسی سیاسی ہو شمندی اور سیاسی حکمت عملی کا مظا ہرہ کریں گے، ابھی اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں اورمسلمانوںمیں سیاسی ہلچل کے بجا ئے مکمل سکوت اور خاموشی ہے اور ماضی کی طرح مسلم تنظیموں کے کسی محاذ کے تشکیل دیے جانے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ یو ڈی ایف کے قائد مولانا بدرالدین اجمل کی آواز سنائی پڑی ہے، اس آواز سے کوئی ہلچل یا کچھ ارتعاش ہوگا، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔مولانا بدرالدین اجمل نے یہاں دیوبند میں 22جون کومیڈیا کے روبرو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بنگال میں وزیراعلیٰ ممتا بنر جی نے ایک راستہ دکھا یا ہے، یوپی میں ون پوائنٹ پروگرام کے تحت سیکو لر پارٹیوں کو متحد ہو کر بی جے پی کا صفایا کرنا چاہیے۔ انہوں نے پیشکش کی کہ اگر ہماری ضرورت پڑے گی تو اس کام میں ہماری پارٹی مدد کرے گی۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یو ڈی ایف یوپی کے انتخابات میں حصہ لے گی یا نہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ تمام سیکولر پارٹیاں متحد ہوکر انتخابات لڑیں اور بی جے پی کا صفایا کیا جائے، ہر چندکہ آسام میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی، جہاں ان کی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا اور 16 سیٹوں پر کامیابی درج کرائی ہے ۔پریس کانفرنس میں انہوں نے شکوہ کیا کہ آسام میں ان کو جو حمایت ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل پائی، وقت رہتے ٹکٹوں کی تقسیم نہیں ہوپائی اور ان کی پارٹی کو اتنی سیٹیں کانگریس نے نہیں دیں جتنی حقدار تھی۔ اگر 25-26سیٹوں پر ان کی پارٹی لڑتی تو زیادہ سیٹیں مل سکتی تھیں ۔ان کے اس شکوہ سے ظاہر ہے کہ اگر ان کی پارٹی یو ڈی ایف یوپی میں الیکشن لڑے گی تو کانگریس کے ساتھ وہ اتحاد نہیں کریں گے ؟
آزادی کے بعد یو پی میں ابھی تک کسی مسلم سیاسی جماعت نے اپنی سیاسی دھا ک جمائی ہے تو وہ صرف ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم کی مسلم مجلس تھی جس نے اپنی حلیف جماعت ریپبلکن پارٹی کے ساتھ 1968کے انتخابات میں یو پی میں 8سیٹیں حاصل کی تھیں اور 1977کی جنتا لہر میں اس کے دو ممبرانِ پارلیمنٹ جیتے تھے جن میں سے ایک مرحوم ذوالفقار مرکزی وزارت میں شامل کیے گئے تھے، اس لہر میں مسلم مجلس نے یوپی اسمبلی انتخابات میں 14سیٹوں پر کا میابی حاصل کی تھی ۔مسلم مجلس 1967میں قائم ہو نے والی مجلس مشاورت کے بطن سے پیدا ہوئی تھی جس نے آزادی کے بعد سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے ایک 9نکاتی منشور دیا تھا اور مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ جو اس منشور کو تسلیم کریں اور مسلمان اس کو ووٹ دیں۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی حمایت سے بڑی تعداد میں امیدوار کامیاب ہو ئے تھے، اسی سے حوصلہ پاکر ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم نے مسلم مجلس قائم کی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے لیکن 1974 میں ڈاکٹر فریدی جیسے بالغ نظر مسلم قائد کے انتقال کے بعد کوئی مخلص اور سیاسی طور پر ہوشمند مسلم لیڈر یوپی کے مسلمانوں کو میسر نہیں ہوا اور مسلم مجلس بھی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ ہر چند کہ مسلم مجلس سے ناطہ توڑ کر یوپی میں مسلم لیگ قائم کرنے والے ڈاکٹر بصیر احمد خان، بی ایس پی سے نکا لے گئے نیشنل لوک تانترک پارٹی کے ڈاکٹر مسعود، پیس پارٹی کے ڈاکٹر ایوب ، بٹلہ ہائوس کے واقعہ کے نتیجہ میں راشٹریہ علماء کونسل قائم کرنے والے مرحوم مولا ناعامر رشیدی اپنا جھنڈالے کر یو پی کی سیاست میں اترے۔ اسد الدین اویسی نے بھی حیدرآباد سے آکر یوپی میں سیاسی قسمت آزمائی لیکن کسی کو بھی وہ کامیابی آج تک نہیں ملی جو مسلم مجلس کو حاصل ہو ئی تھی۔ یو پی کے 19فیصد مسلمان ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح آج بھی سیاسی لحاظ سے حاشیہ پر ہیں اور سیاسی طور پر بے وقعتی کے شکار ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہر سیاسی پارٹی مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے، ووٹ کے بدلے میں ان کو دیتی کچھ نہیں۔ پہلے یہ رویہ کانگریس کا رہا، بعد میں سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور لوکدل نے بھی یہی وطیرہ اختیارکیا ۔مسلمانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوانِ اقتدار میں پہنچنے والی جماعتیں ملائی چاٹتی رہی ہیں لیکن سیاسی، سماجی،تعلیمی اور معاشی طور پر مسلمانوں کی شبِ تاریک کی سحر کبھی نہ ہوئی، بدلے میں بی جے پی اور سنگھ پریوارکی دشمنی ملی ۔نہ مسلمان بی جے پی کے قریب پھٹکے نہ بی جے پی نے مسلمانوں کو بھا ئو دیا۔

آزادی کے بعد سے ہر سیاسی پارٹی مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہے، ووٹ کے بدلے میں ان کو دیتی کچھ نہیں۔ مسلمانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوانِ اقتدار میں پہنچنے والی جماعتیں ملائی چاٹتی رہی ہیں لیکن سیاسی، سماجی،تعلیمی اور معاشی طور پر مسلمانوں کی شبِ تاریک کی سحر کبھی نہ ہوئی، بدلے میں بی جے پی اور سنگھ پریوارکی دشمنی ملی۔

بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ بہت کم دیتی ہے، پہلی مرتبہ بنگال کے حالیہ انتخابات میں 9امیدواوں کو ٹکٹ دیا، وہ اپنے کنبہ کے ووٹ بھی حاصل نہیں کرپائے۔یو پی اسمبلی کے انتخابات سر پر ہیں۔ سماجوادی پارٹی مغربی یو پی میں لوکدل سے ہاتھ ملاکر جاٹ ووٹ اور چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی (کانشی رام) سے ہاتھ ملاکر دلت ووٹ لینا چاہتی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ سے اپنی سیاسی زمین کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور مشرقی یو پی کے مسلم ووٹوں پر ان کی نظریں ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ حسرت گزشتہ انتخابات میں بھی پوری نہیں ہوئی تھی، ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی یہاں ایسا نہیں کہ جس کے بل بوتے وہ مضبوط مسلم امیدوار ڈھونڈ پائیں۔ مسلمانوں کے بارے میں عام تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ بی جے پی کو روکنے اور سیکولرزم کا جھنڈا بلند رکھنے کا فرض ہمیشہ مسلمان نبھاتے آرہے ہیں، اس لیے اس مرتبہ بھی مسلمان غیر مشروط طور پر سماجوادی کے پلڑے میں ہی اپنا وزن ڈالیں گے، یہی سوچ سماجوادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش سنگھ یادو کی بھی ہے۔
یو پی میں داڑھی کاٹنے جیسی اشتعال انگیز حرکتوں سے لیکرمبینہ طورپر جبراً اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے والی تنظیموں کے ذریعہ آئی ایس آئی کے نیٹ ورک کا پردہ فاش ہو نے تک کی ہنگامہ خیزی اور شور میں حالات جس سمت میں جارہے ہیں، اس سے تو اسی بات کا امکان ہے کہ اس مرتبہ بھی مسلمان اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جو بی جے پی کو دو بارہ اقتدار میں آنے سے روک سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS