ایم اے کنول جعفری
عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں ہو رہے اضافے پر تمام ممالک کا صرف فکر مند ہونا کافی نہیں ہے۔اس کے لیے پوری ایمانداری اور سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ کرۂ ارض کی بڑھتی تپش کی وجہ سے گلیشیئروں کے تیزی سے پگھلنے اور کئی ممالک میں ہونے والی طوفانی بارشوں کی وجہ سے سمندروں کی سطحوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی رہنما ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور درجۂ حرارت کو کم کرنے کی سمت میں اٹھائے جا رہے اقدامات کا جائزہ لینے اور مزید بہتری کے لیے سفارشات پیش کرنے پر غوروخوض کے ساتھ تجاویز منظور کرنے کے لیے ہر برس ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس باریہ اجلاس ’سی او پی27‘ یا ’کوپ 27‘ نام سے ہو رہا ہے۔دراصل اقوام متحدہ نے 1992میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جسے ’یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کہا جاتا ہے۔اس کے تحت ہر برس رکن ممالک کی کانفرنس ہوتی ہے جس میں اس بات پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جاتا ہے کہ سفارشات پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ اگر کیا گیا تو کس حد تک؟اس بابت پہلی کانفرنس1995 میں برلن میں منعقد کی گئی تھی۔ تنظیم کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے رکن ممالک پر عائد کی گئی شرائط پرلازمی عمل درآمد کرانا ہے۔ کوپ کے اہم ترین ا ہداف میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ روکنے کے لیے فضا میں کاربن کی مقدار کم رکھنا اور دنیا میں پھیلی ماحولیاتی آلودگی کو گھٹانا ہے۔ اس کے لیے کئی اقدامات کو منظوری دی گئی لیکن ہر ملک کے سامنے نجی مفادات کی بنا پر اہم ترین اہداف کے پورا کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اہداف پر عمل آوری کے لیے 12 دسمبر، 2015 کو فرانس کے دارالخلافہ پیرس میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا جسے پیرس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ معاہدے پر قریب 200 ممالک کے سربراہان اور نمائندوں نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک پہلی مرتبہ ماحولیاتی تپش کم کرنے کے لیے کسی معاہدے پر متفق ہوئے تھے۔ طے پایا تھا کہ تمام ممالک درجۂ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے لیے مشترکہ طور پر مسلسل کوششیں کریں گے۔ ہر ملک اپنے اہداف خود مقرر کرے گا اور ان کا ہر پانچ برس کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔ دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی پر خصوصی نظر رکھنے والے عالمی ادارے آئی پی سی سی کی جانب سے بڑے پیمانے پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 1.5 ڈگری سیلسیئس تپش میں 0.5 ڈگری سیلسیئس کے اضافے کے ساتھ درجۂ حرارت دو ڈگری سیلسیئس ہونے سے بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ حالانکہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی گرمی سے بھی ماحول میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوں گی لیکن دو ڈگری سیلسیئس کی حدت سے دنیا بھر میںجو تباہی آئے گی، وہ بہت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہوگی۔ شاید اسی کے مدنظر آئی پی سی سی نے دو ڈگری سیلسیئس کے مقابلے 1.5 ڈگری سیلسیئس کی تپش کو غنیمت ماناہے۔
کوپ27 کا، جسے ’کوپ آف امپلی منٹیشن‘ کہا گیا ہے، اجلاس 6 نومبر سے مصر کے شہر شرم الشیخ میں شروع ہو چکا ہے جو 18 نومبر تک جاری رہے گا۔ گزشتہ ایک برس میں تمام براعظموں کے متعدد خطوں میں بے شمار شدید موسمی واقعات اور قدرتی آفات میں عالمی گرم تابی یا شعاع زنی کا غیر واضح تاثر سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کوپ 26 میں کرائی گئی یقین دہانی اور اس کے جواب میں کیے گئے اقدامات کے درمیان نمایاں فرق کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ صحت کے لیے نقصاندہ گیسوں کا اخراج ایمانداری اور برابری کی حد میں ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی یقین دہانی کے باوجود عمل نہیں کرنے کی بات جتنی عجیب ہے، اس سے کہیں زیادہ حیران کن امر ان کے ذریعہ روایتی ایندھن کا پھر سے شروع کر دینا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے کوپ27 کانفرنس کے آغاز کے موقع پر جاری رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ گزشتہ آٹھ برس دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر درجۂ حرارت کے ڈرامائی اضافے کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح کیا گیا کہ سمندروں کی سطح میں اضافے، گلیشیئر پگھلنے، طوفانی بارشوں، ہیٹ ویوز اوردیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے۔زمین کا درجۂ حرارت 19ویں صدی کے اختتام کے مقابلے 1.1 ڈگری سیلسیئس بڑھ چکا ہے اور اس میں بھی 50 فیصد اضافہ گزشتہ 30 برسوں میں ہوا ہے۔ کسی کانفرنس میں سبھی 193 ممالک کے سربراہ ایک ساتھ شامل نہیں ہوئے لیکن شرم الشیخ میں دنیا بھر کے110 رہنماؤں کی موجودگی اطمینان بخش ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سمندری پانی کا درجۂ حرارت 2021 میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا جبکہ بحری ہیٹ ویوز کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ مجموعی طور پر سمندر کے 55 فیصد حصے کو 2022 میں کم سے کم ایک مرتبہ ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا۔ گلیشیئرس اور برفانی پرت پگھلنے سے سمندروں کی سطح میں گزشتہ 30 برسوں میں دوگنا اضافہ ہو ا جس سے مختلف ساحلی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کوپ 27 کلائمیٹ امپلی مینٹیشن سمٹ میں خطاب کے دوران اقوام عالم کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی موسمیاتی تبدیلی جہنم کے ہائی وے پرہے۔ہم زندگی کی جنگ تیزی سے ہار رہے ہیں۔ ہمارے پاس آنے والی نسلوں کے لیے اس سیارے کو محفوظ کرنے کا آخری موقع ہے۔ اب پسند یا انتخاب کا اختیار نہیں بچا۔ یا تو تعاون کرو یا پھر جہنم میں جلو۔دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے چین اور امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ کاربن کے اخراج کو کم کریں اور مل کر انسانیت کو تباہی سے بچائیں۔ دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم آب و ہوا کے لیے سمجھوتہ کرنے کے لیے اکٹھا ہوں اور ایک دوسرے کو بچائیں ، ورنہ ہم پہلے ہی خود تباہی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ اگر کسی بھی طریقے سے 2050 تک صفر کے اخراج کا ہدف حاصل کر لیا جائے تب بھی انسانیت کے پاس زندہ رہنے کا ایک ہدف ہوگا۔ دنیا کو ہر حال میں 2040 تک کوئلے کے استعمال سے پاک کرنا ہوگا۔ امیر ترین اور غریب ترین ممالک کے درمیان معاہدے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فوسل ایندھن سے منتقلی کو تیز کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غریب ممالک اخراج کو کم کر سکیں اور موسمیاتی اثرات سے نمٹ سکیں۔ دوسری جانب تیل کے زخائر والے ممالک کا کہنا ہے کہ فوسل فیول کا استعمال جلدی بازی میں روکنا کافی مہنگا ثابت ہوگا۔ یہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے مفادمیں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کی ایمیشن گیپ رپورٹ کے مطابق اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا رجحان موجودہ سطح پر برقرار رہتا ہے تو صدی کے آخر یعنی 2100 تک زمین کا درجۂ حرارت 2.8 ڈگری سیلسیئس ہو جائے گا جبکہ زندگی بچانے کے لیے یہ اہم ہے کہ صدی کے آخر تک درجۂ حرارت میں 1.5 سے زیادہ کا اضافہ نہ ہو۔
گلوبل وارمنگ کی رفتار گھٹانے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے ہونے والے نقصانات کی تلافی حساس اور اہم مسئلہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک متحد ہوکر یہ کوشش کریں گے کہ کوئی اقدام کرنے کے وعدے سے قبل مالی معاوضے کے لیے ٹھوس ایکشن پلان پیش کریں۔ ہندوستان، برازیل اور چین سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک کا زور اس بات پر ہو گا کہ ترقی یافتہ ممالک کلائمٹ فنڈ میںاضافہ کریں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ٹھوس پلان کس دن سے شروع کیا جائے گا۔ دوسری جانب ترقی پزیر ممالک چاہیں گے کہ پہلے کوئلے، فوسل فیول اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے بڑے وعدے کیے جائیں۔ 2015 میں پیرس معاہدے کے تحت کئی ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ممالک کو سبز معیشتوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد کے لیے اقتصادی اور تکنیکی مدد فراہم کریں گے، تاہم بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے ابھی تک قومی عوام کو متعارف نہیں کرایاہے جس کے تحت کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار بند کر کے نیٹ زیرو کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا ہدف حاصل کیا جا تا ہے۔ 2030 کے موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے کافی ترقیاتی فنڈ نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی حفاظت کے لیے اپنے خزانے کھول دیں۔ کانفرنس کا انعقاد کرنے والے مصر کو ٹارگیٹ حاصل کرنے کے لیے 246 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال دیگر ممالک کی ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 55 ملکوں کو گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق معاملوں میں 525 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ 2030 تک یہ نقصان 580 ارب تک پہنچ جائے گا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ سے اس کے اخراج موسمیاتی اثر پیدا کرنے کی قیمت وصول کی جائے تو یہ قریب1,900ارب ڈالر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ یہ قیمت ادا کر پائے گا؟ اگر وہ یہ قیمت نہیں چکا پاتا تو پھر کسی دوسرے ملک کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ ترقی نہ کرے ؟n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]
آسان نہیں!روایتی ایندھن سے نجات
گزشتہ برس اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں کوپ26 کے اجلاس میں 197 ممالک کے رہنماؤںنے شرکت کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر سنجیدگی سے تبادلۂ خیال کیا تھا۔ اجلاس کا اہم ہدف عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کوکم کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں جس تیزی سے موسمیاتی تبدیلی آ رہی ہے، اس کے مطابق 1970 کے بعد کے گزشتہ 50برسوں میں طوفان ، خشک سالی، شدید گرمی،شدت کی سردی اور آگ لگنے کے واقعات میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اگر وقت رہتے ماحولیاتی تبدیلی سے نہ نمٹا گیا تو دنیا ایسے موڑ پر آ کھڑی ہو گی جہاں سے واپسی ناممکن ہو جائے گی۔ مشکل یہ ہے کہ موجودہ وقت میں دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کا انحصارکاربن ڈائی آکسائڈ پیدا کرنے والی انڈسٹریز پر ہے۔ بڑے کارخانوں اور فیکٹریوں میں پیٹرولیم، کوئلہ اور قدرتی گیس کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوتی ہیں جو ماحولیاتی تپش کا باعث بنتی ہیں۔
سبز اشیا کا استعمال کرنے والی بھیڑوں، بکریوں اور اونٹوں وغیرہ جانوروں کے ریوڑ بھی ایسی ہی گیسیں اخراج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر کوئی ملک ان روایتی ایندھنوں کو ختم کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی معیشت میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلی لانی ہوگی۔ اسے توانائی کے صاف ستھرے ذرائع اپنانے ہوں گے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ تبدیلی کا یہ نظام انتہائی مہنگا ہونے کی بنا پر ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپ کے بہت سے رکن ممالک توانائی کے صاف ستھرے ذرائع اپنانے سے ہچکچا تے نظر آتے ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ سی او پی کی ہدایت کے مطابق انڈسٹریز میں روایتی ایندھن کا استعمال بند کر دیں گے تو ان کی اقتصادی حالت خستہ اور معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہواکہ توانائی کا یہ عمل ایک دم سے شروع نہیں کیا جا سکتا۔ اسے رفتہ رفتہ فروغ دے کر روایتی ایندھن سے مکمل طور پر چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق کی ہے۔ امیر ترین ملکوں میں کوئلہ، پیٹرولیم اور گیسوں کی کھپت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ فضا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا بہت بڑا حصہ انہیں ممالک کا پیدا کیا ہوا ہے۔ غریب ممالک کاربن کی کم آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں سب سے زیادہ موسمیاتی آلودگی کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔n