کوئی ملک اس وقت سوشلسٹ کہلاتا ہے جب وہ اپنے قوانین سماجی اقدار کے ساتھ ساتھ مسلمہ اخلاقیات کو مد نظر رکھ کر بنائے۔یہ قوانین عوام کے نظریے کے مطابق اور معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے بنائے جائیں۔ان قوانین کے نفاذ سے سماجی و اخلاقی اقداراور معاشرتی تہذیب کی حفاظت مقصود ہو۔دنیا کے تمام سوشلسٹ ممالک اسی اصول پر کاربند رہتے ہیں۔اپنی سماجی اخلاقیات اور تہذیبی اقدار کو مدنظر رکھ کرعوام کی ضرورتوں کے مطابق قانون بناتے ہیں۔سوشلسٹ ممالک انفرادی آزادی کا بھی خیال رکھتے ہیں لیکن اجتماعی اخلاقیات کی قیمت پر انفرادی آزادی کو فوقیت نہیںدی جاتی ہے۔جہاں اجتماعی نقصان کا احتمال ہوتا ہے، وہاں انفرادی آزادی بے وقعت ٹھہرتی ہے۔ ہندوستان بھی ایک سوشلسٹ سیکولر جمہوریہ ہے۔ جہاں توقع کی جاتی ہے کہ ایسی ہی قانون سازی ہو جو ہندوستان کی تہذیب، معاشرت، روایت، رسم و رواج اور سماج کی مسلمہ اخلاقی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہو۔ کچھ عرصہ قبل تک ان باتوں کا خیال بھی رکھاجاتا تھا لیکن اب وہ قصۂ پارینہ ہوچکا ہے۔ مسلم دشمنی میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر کسی قانون یا عمل سے مسلمانوں کوزک پہنچ رہی ہو تو اسے ہر حا ل میں نافذ کیا جانا ہے، چاہے سماجی اخلاقیات اور قانونی آزادی کے حوالے سے انتشار اور تنازعات ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ ملک کی تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدارہی کیوں نہ قربان کرنی پڑیںاور اس کی قیمت پورا ملک ہی کیوں نہ چکائے، ایسے قوانین بنائے جائیں گے اور نافذ بھی کیے جائیں گے۔
ایسے ہی قوانین کا مجموعہ آج ملک کی دیوبھومی کہی جانے والی ریاست اتراکھنڈ کی قانون ساز اسمبلی نے پیش کیا ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے آج منگل کو دہرہ دون میں ریاستی قانون سازاسمبلی میں یکساں سول کوڈ اتراکھنڈ 2024 بل پیش کیا۔ارکان قانو ن سازیہ نے ’جے شری رام‘ کے نعروں کے ساتھ اس کا خیر مقدم بھی کیا۔ اب یہ بل اسمبلی سے گورنر کے پاس پہنچے گا اور وہاں سے منظوری کے بعدقانون بن جائے گا۔اس کے ساتھ ہی ’دیوبھومی‘ اترا کھنڈیکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست کا اعزازحاصل کرلے گی۔ وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کا کہنا ہے کہ اس مسودے میں 400 سے زائد دفعات ہیں جن کا مقصد روایتی رسوم و رواج سے پیدا ہونے والی بے ضابطگیوں کو دور کرنا اور ریاست میںسماجی ڈھانچہ کو مضبوط بنانا ہے۔لیکن ان کے سرسری جائزے میں جو دفعات نمایاں ہوکر سامنے آئی ہیں، ان میں ’تعددازواج‘ پر مکمل پابندی ہے، اسے قابل سزاقراردینے کے ساتھ ہی شادی و نکاح کیلئے ’محرم ‘ کی نئی تشریح ہے۔
شادی کیلئے ان تمام رشتوں کو محرم کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے جن کے معاملے میں مسلمانوں کے یہاں اجازت ہے۔اب یہ کون ساسوشلسٹ نظام ہے، یہ سمجھ سے بالا تر ہے جہاں مسلمانوں کو تاک کر نشانہ بنایا جارہاہے۔
اس مبینہ یکساں سول قانون کی دوسری نمایاں خصوصیت ’ لیو ان ریلیشن شپ ‘کو قانونی تحفظ فراہم کرکے اسے بڑھاوا دینا ہے۔ کہاگیا ہے کہ ایسے تمام بچوں کو وراثت میں یکساں حقوق حاصل ہوں گے (بشمول والدین کی جائیداد)۔ اس میں ’بیٹے‘ یا ’بیٹی‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یعنی سب کو وراثت میں برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔اس قانون کے مطابق کسی خاتون کو اس کا ساتھی اگر چھوڑ دیتا ہے تو وہ دیکھ بھال اور گزارہ بھتہ کادعویٰ کرسکتی ہے۔
’ لیو ان ریلیشن شپ ‘ یا کھلے لفظوں میں مردو عورت کا ایک دوسرے کیلئے ’داشتہ‘ اور ’رکھیل ‘ ہونا ہے۔ سہل پسند اور مادہ پرست مغرب اس روایت کو فروغ دے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ہندوستان کی دیو بھومی میں ایسی روایتوں کو قانونی تحفظ کا مل جانا حیرت ناک ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اسلام کو جانے دیجیے ہندوئوں میں ایسے تعلقات کو لعنت سمجھاجاتا ہے اورایسے تعلقات میں پیدا ہونے والی اولاد سماج کیلئے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ایسے تعلقات میں خواتین کی اخلاقی حیثیت کیا ہوتی ہے، اس کاذکر بے معنی ہے۔ہندوستانی معاشرے میں زمانہ قدیم سے ہی رشتوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔کہاجاتا ہے کہ شادی صرف دو افراد کو نہیں بلکہ دو خاندانوں کو جوڑتی ہے، ہر حال اور حالات میں رشتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی کے نام پر طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی ٹھہرایاگیا تھا۔ ایک ایساملک جہاں دو افراد کا بغیر شادی کے اکٹھے ملنا اور گھومنا پھرنا قابل قبول نہیں ہے اور شدت پسند عناصرایسے جوڑوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارتے ہوں۔ایسی صورت حال میں دو افراد کا ایک ساتھ رہ کر بغیر شادی کے جنسی تعلقات قائم کرنے یعنی زنا کو قانونی قرار دینا سماج کی کس بے ضابطگی کو درست کرنا ہے۔ دنیا کے تمام جانور لیو ان ریلیشن شپ میں رہتے ہیں۔شادی کا تعلق قائم کرکے خاندان کا ادارہ صرف انسان بناتا ہے۔لیو ان ریلیشن شپ کو تحفظ فراہم کرنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا کہ ہم جانور نہیں، انسان ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ سماجی ڈھانچہ کو مضبوط کرنے کی بات کرنے والے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی ’ لیو ان ریلیشن شپ ‘کو بڑھاوا دینے کیلئے سماجی اور خاندانی ڈھانچہ کی توڑ پھوڑ کا سامان کررہے ہیں اور خوش ہیں کہ انہیں یکساں سول قانون نافذ کرنے والی پہلی ریاست کے وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہورہاہے۔
[email protected]
دیو بھومی میں یکساں سول قانون!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS