صبیح احمد
حالیہ برسوں میںیونیفارم سول کوڈ پر سیاسی اور سماجی سطح پر ماحول پھر سے گرم ہو گیا ہے۔ جب بھی الیکشن کا موسم آتا ہے، اس موضوع کو ہوا دے دیا جاتا ہے۔ ’الیکشن جیویوں‘کو اب نئے انتخابی موضوع کی تلاش ہے۔ فی الحال یونیفارم سول کوڈ سے بہتر اور کوئی موضوع نہیں ہو سکتا۔ جب بھی الیکشن کی آہٹ ہوتی ہے، یہ راگ سنائی دینے لگتا ہے۔ اور جب الیکشن کا دور ختم ہوتا ہے تو یہ موضوع پھر اس وقت تک ٹھنڈے بستے میں چلا جاتا ہے، جب تک کسی نئے الیکشن کا بگل بجنے والا نہ ہو۔ آخر یہ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ اس پر آزادی کے 70 برس بعد بھی ابھی تک عام اتفاق رائے قائم کیوں نہیں ہو سکا ہے؟ اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟
آسان لفظوں میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کا مطلب ایک سکیولر (غیر مذہبی) قانون ہے جو سبھی مذاہب اور کمیونٹیوں کے لیے یکساں طورپر نافذ ہوتا ہے۔ مختلف مذہب اور کمیونٹی کے لیے الگ الگ قانون نہ ہونا ہی اس کی حقیقی روح ہے۔اس کا اہم مقصد یہ ہے کہ ملک کے سبھی شہریوں پر یکساں طور پر یہ قانون نافذ ہوگا، خواہ وہ کسی بھی ذات یا کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ قانون خاص طور پر شہریوں کے عائلی معاملوں میں 3 سطحوں پر نافد ہوتے ہیں۔ انفرادی سطح پر(Personal level)، شادی، طلاق اور گود لینا (Marriage,Divorce and Adoption) اور جائیداد کے حصول اور آپریشن کا حق (Right to acquire and operate property)۔ ہندوستان میں آئین بناتے وقت یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں کافی بحث و مباحثہ ہوا تھا لیکن اس وقت کی صورتحال میں اس کا نفاذ مناسب نہیں سمجھا گیا، جس کے سبب اسے آئین کے آرٹیکل 44 میں ’پالیسی کے ہدایتی اصول‘ (Directive Principles) کے زمرے میں جگہ دی گئی۔ اور توقع کی گئی کہ جب ملک میں اس حوالے سے عام اتفاق رائے قائم ہو جائے گا تو یونیفارم سول کوڈ وجود میں آ جائے گا۔ ’پالیسی کے ہدایتی اصول‘ آئین کا وہ حصہ ہے جس کی بنیاد پر سرکار سے کام کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو 1954-55 میں زبردست مخالفت کے باوجود ہندو کوڈ بل لے کر آئے تھے۔ اس کوڈ کی بنیاد پر ہندو شادی قانون اور جانشینی قانون وضع کیے گئے، یعنی ہندو، جین ، بودھ اور سکھ کمیونٹی کے لیے شادی، طلاق، جانشینی جیسے معاملوں کے ضوابط طے کر دیے گئے لیکن مسلمان، پارسی، عیسائی کمیونٹیوں کو اپنے مذہبی قوانین یعنی پرسنل لا کے تحت رعایت دی گئی۔ یہ رعایت ان سبھی کمیونٹی کے لوگوں کو بھی ملی ہے جو ’ناگا‘ یا ’آدیواسی‘ لوگ ہیں۔ یہ سبھی لوگ اپنی روایت کے مطابق ہی قانون پر عمل کرتے ہیں۔ اگر مکمل طورپر یونیفارم سول کوڈ نافذ ہو جاتا ہے تو یہ سبھی لوگوں کے لیے یکساں طور پر نافذ ہوگا۔
بہرحال آزادی کے 70 سال بعد بھی یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے عام اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا ہے۔ صرف عوامی سطح پر ہی عدم اتفاق نہیں ہے، بلکہ ماہرین میں بھی ایک رائے نہیں ہے۔ گزشتہ سال ہی دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی وکالت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اسے نافذکرنے کے لیے مناب قدم اٹھانے کیلئے کہا تھا۔ کورٹ نے کہا تھا کہ ملک ذات، مذہب اور کمیونٹی سے اوپر اٹھ رہا ہے۔ ایسے میں یونیفارم سول کوڈ وقت کی مانگ اور ضرورت ہے۔ جبکہ کچھ دنوں قبل لا کمیشن نے ایک مشاورت نامہ (Cosultation Paper) جاری کرتے ہوئے مرکزی سرکار سے کہا تھا کہ موجودہ وقت میں یونیفارم سول کوڈ نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی مطلوبہ۔ کمیشن کا ماننا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ سبھی نجی قانونی عمل (Legal Process) کو کوڈیفائیڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک رائے عامہ کا سوال ہے، اس میں تو بہت ہی زیادہ اختلاف ہے۔ ایک جانب جہاں ملک کی اکثریتی آبادی یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کا پرزور مطالبہ کرتی رہی ہے، وہیں اقلیتی طبقہ اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے خواتین کو یکساں حقوق ملنا ریگستان میں نخلستان سے کم نہیں ہوگا لیکن اس راہ میں قدم قدم پر بے شمار چیلنجز ہیں۔ ایک طرف جہاں اقلیتی کمیونٹی یونیفارم سول کوڈ کو آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی مانتی ہیں، وہیں اس کے علمبردار یونیفارم سول کوڈ نافذ نہ کرنے کو آرٹیکل 14کی توہین بتا رہے ہیں۔
لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ثقافتی تنوع سے اس حد تک سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے کہ یکسانیت کے لیے ہماری کوشش علاقائی سالمیت کے لیے ہی خطرہ بن جائے؟ کیا ایک متحدہ ملک کو ’یکسانیت‘ کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم تنوع کی خوبصورتی کی پروا ہی نہ کریں؟ دوسری طرف سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم صدیوں سے کثرت میں وحدت کا نعرہ لگاتے آ رہے ہیں تو قانون میں یکسانیت پر اعتراض کیوں؟ کیا ایک آئین والے اس ملک میں لوگوں کے نجی معاملوں میں بھی ایک قانون نہیں ہونا چاہیے؟ آخر ملک کی آزادی کے اتنے دنوں بعد بھی یونیفارم سول کوڈ اب تک نافذ کیوںنہیں کیا جا سکا ہے؟ کئی مواقع ایسے آئے جب سپریم کورٹ نے بھی یکساں سول کوڈ نافذ نہ کیے جانے پر ناخوشی ظاہر کی۔ 1985 میں شاہ بانو کیس اور 1995 میں سرلا مدگل معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ پر تبصرہ سے بھی اس معاملہ نے طول پکڑا تھا جبکہ گزشتہ سال ہی 3 طلاق پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے بعد بھی اس معاملہ کو ہوا ملی تھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت کیوں نہیں ہو سکی ہے؟ دراصل ہندوستان کا ایک کثیر ثقافتی ملک ہونا اس معاملے میں بڑا چیلنج ہے۔ ہندو مذہب میں شادی کو جہاں ایک سنسکار مانا جاتا ہے، وہیں اسلام مذہب میں اسے ایک کنٹریکٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ عیسائیوں اور پارسیوں کے رسم و رواج بھی الگ الگ ہیں۔ لہٰذا وسیع ثقافتی تنوع کے سبب نجی معاملوں میںایک رائے قائم کرنا عملی طور پر بے حد مشکل ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے کہ اقلیت خاص طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی یونیفارم سول کوڈ کو اس کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بڑی آبادی کے مطالبہ کو نظر ا نداز کر کے کوئی قانون عمل میں نہیں لایا جا سکتاہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کا فیصلہ لے بھی لیا جاتا ہے تو اسے جامع شکل دینا قطعی آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے عدالت کو نجی معاملوں سے منسلک تمام پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا۔ شادی، طلاق، دوبارہ شادی وغیرہ جیسے مسائل پر کسی مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر قانون بنانا آسان نہیں ہوگا۔ صرف شریعہ قانون 1937 ہی نہیں بلکہ ہندو میرج ایکٹ1955، کرسچین میرج ایکٹ 1872، پارسی میرج اینڈ ڈائیوورس ایکٹ1936 میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، مشکل یہ بھی ہے کہ ملک کے الگ الگ حصے میں ایک ہی مذہب کے لوگوں کے رسم و رواج الگ الگ ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے پیش رفت نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انتخابات سے عین قبل یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کرکے انتخابی روٹی سینکنے سے مسئلہ کا حل کبھی نہیں نکل سکے گا بلکہ اس کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے ایمانداری سے کوشش کرنی ہوگی۔
بہرحال اگر راجہ رام موہن رائے ’ستی پرتھا‘ کے خلاف آواز اٹھا سکے اور اس کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکے تو صرف اس لیے کہ انہیںاپنے مذہب کے اندر کی برائیوں کی فکر تھی۔ اس لیے مذہبی رہنمائوں کو بھی ایمانداری سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان جیسے ملک میں ثقافتی تنوع ہونے سے نہ صرف نجی قوانین میں بلکہ رہن سہن سے لے کر خورد و نوش تک میں تنوع دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی اس ملک کی خوبصورتی بھی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک کو یکساں قانون میں پرونے کی پیش رفت زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کی راہ اپنا کر ہی کی جائے۔ ایسی کوششوں سے بچنے کی سخت ضرورت ہے جو سماج کو صف بندی کی راہ پر لے جائیں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے چیلنج پیدا کر دیں۔
[email protected]