انجینئر خالد رشید (علیگ)
ابھی چار سال پہلے کی بات ہے جب ملک کے اکیسویں لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نہ تو یکساں سول کوڈ اس وقت ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب(Uniform civil code neither necessary nor desirable at this stage)،پھر آخر چار سال میں ملک کے حالات میں ایسی کون سی تبدیلی رونما ہوئی جس کی وجہ سے لاء کمیشن نے ملک سے یکساں سول کوڈ پر پھر رائے مانگ لی! دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت کی نگاہ میں عوامی آراء کی اتنی اہمیت ہے جس کو مدنظر رکھ کر کوئی قانون بنایا جاسکے۔ اگر عوامی آراء اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں تو تین طلاق، دفعہ370 اورسی اے اے کے وقت یہ اہتمام کیوں نہیں کیا گیا تھا؟ نیز یہ کہ کیا ہندوستان جیسے ملک میں یا ہندوستانی آئین میں عوامی ریفرنڈم کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟ کیا ملک کے آئین میں اکثریت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے اقلیتوں پہ تھوپ سکے اور آئینی امور میں مداخلت کرسکے؟ اگر ایسا ہوتا تو سپریم کورٹ کے لیے رام مندر کا فیصلہ کتنا آسان ہو گیا ہوتا۔ دوسرے یہ کہ کیا موجودہ لاء کمیشن کی رائے کو ماننا مرکزی حکومت کے لیے لازمی ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر اکیسویں لاء کمیشن کی سفارشات کو جن میں صاف طور سے کہا گیا تھا کہ ’’Uniform Civil Code neither necessary nor desirable‘‘ کیوں نہیں مان لیا گیا؟ اب اگر موجودہ کمیشن بھی ایسی ہی کوئی رپورٹ دے گا جو حکومت کے موقف اور بی جے پی کے مقاصد کے خلاف ہوگی تو کیا اس کو تسلیم کر کے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا؟ اکیسواں لاء کمیشن بھی بی جے پی کی سرکار نے2016میں قائم کیا تھا، اس کی رپورٹ2018میں منظرعام پر آئی جو حکومت کی خواہشات کے مطابق نہ تھی، اسی لیے اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ لاء کمیشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2018سے لے کر2022تک یہ عہدہ خالی پڑا رہا، شاید اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ2019میں بی جے پی بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ چکی تھی، اس کو یکساں سول کوڈ کی ضرورت تھی اور نہ ہی لاء کمیشن کی۔ 2022 میں یعنی 2024 کے عام انتخابات سے دو سال پہلے اچانک حکومت کو لاء کمیشن یاد آیا اور جسٹس اوستھی کو ملک کے 22ویں لاء کمیشن کا چیئرپرسن مقرر کر دیا گیا جنہوں نے 14جون 2014کو یکساں سول کوڈ کے جن کو بوتل سے نکال کر حکومت کے اشاروں پر نچانا شروع کر دیا اور ملک کی سیاسی جماعتوں اور عوام سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر ان کی رائے دینے کا سرکلر جاری کر دیا، اب ملک میں ایک ایسی رائے شماری کرائی جارہی ہے جس کا نتیجہ پہلے سے معلوم ہے جو بقول حکومت اس مسئلہ کا حل تجویز کرے گی جس کو نہ انگریز حل کر سکے نہ ہی ملک کا آئین بنانے والے ادارے۔ جب constitutional assemblyبھی اس پیچیدہ معاملے میں کسی نتیجہ پہ نہ پہنچ سکی تو اس نے بھی یہ کام آنے والی حکومتوں کے سپرد کر دیا اور آئین میں ایک ایسی شق کا اضافہ کردیا جو2024کے عام انتخابات میں بی جے پی کے لیے سنجیونی کا کام کرے گی۔ جہاں تک یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا سوال ہے، اگر ہندوستان جیسے کثیر عقائد ملک میں یہ ممکن ہوتا تو اس کا حل آئین سازوں نے ہی تجویز کر دیا ہوتا جن کے اختیارات کسی بھی حکومت سے کہیں زیادہ تھے۔ ملک میں سماجی نظام میں موجود اختلافات کا عالم یہ ہے کہ ملک کا ایک خطہ ایسا ہے جہاں سگی بھانجی سے شادی نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بھانجی کی شادی کسی اور سے اسی وقت ہوتی ہے جب ماما انکار کر دے۔ دوسری جانب اسی مذہب کے اپنے قریبی رشتہ داروں بلکہ گوتر یعنی قبیلہ میں شادی کرنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں آج بھی زندہ بیٹیوں کو کوڑے دان میں پھینک کر لوگ سزا سے بچ نکلتے ہوں، وہاں حقوق نسواں کے لیے قانون بنانا اور اس کا نفاذ کتنا ممکن ہے، اس کا اندازہ حکومت کو بھی ہے اور قانون کا نفاذ کرنے والوں کو بھی ہے۔ مسلمانوں کی بات تو بالکل مختلف ہے، جن کے پاس ایک مکمل قانون موجود ہے۔ حکومت بخوبی جانتی ہے کہ ہندو سماج میں بھی کوئی یکساں قانون نافذ کرانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، اسی لیے ناگالینڈ اور دوسری ریاستوں کے قبائل کو اس ممکنہ قانون سے الگ رکھنے کی تجاویز آنے لگی ہیں۔ سکھ سماج بھی کھل کر ایسے کسی قانون کے خلاف ہے، دلت اور پسماندہہ سماجوں سے مخالفت کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں جبکہ ابھی تو قانون کا مسودہ بھی تیار نہیں ہے اور ابھی سے مخالفت کے سُر پورے ملک میں سنے جا سکتے ہیں، ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ اس پیچیدہ مسئلہ کو اس وقت ہوا دینے کے پیچھے سنگھ پریوار کا مقصد کیا ہے؟ سوال جتنا سیدھا ہے جواب بھی اتنا ہی آسان ہے، گزشتہ پچاس سالوں کی متواتر کوششوں کے نتیجہ میں سنگھ ملک میں ایک ایسا ٹولہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے جو مسلمانوں کو دی جانے والی ہر اذیت سے خوش ہوکر اپنے دکھ درد بھولنے کو تیار ہے جو تین طلاق، دفعہ370، مسلمانوں کی ماب لانچنگ، نقاب پہ پابندی جیسی موسیقی پہ جھوم کر ناچنے لگتا ہے اور سوروپے لیٹر پٹرول، 200روپے کلودال، 100روپے کلوٹماٹر اور گیارہ سو کا گیس سلنڈر خوشی سے خرید لیتا ہے۔ دراصل یکساں سول کوڈ اسی ٹولے کی غذا ہے۔ بی جے پی اپنے اس ووٹ بینک کو زندہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً جس ٹانک کا بندوبست کرتی ہے، یکساں سول کوڈ اسی قسم کا ایک ٹانک ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کے جنون میں سرشار کچھ لوگ اپنی ایک آنکھ قربان کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ مسلمانوں کو اندھا کر دیا جائے۔ ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ دن بہ دن نفرت کے اس ٹانک کے خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور جب تک نفرت کے اس ٹانک کے خریدار بازار میں موجود رہیں گے، یکساں سول کوڈ جیسے ایشوز بھی نہ صرف زندہ رہیں گے بلکہ نئے نئے روپ میں ملک کے سامنے آتے رہیں گے۔ کرناٹک اور ہماچل پردیش کی شکست، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی متوقع شکست، راجستھان میں پارٹی کی گٹ بازی، بھارت جوڑو یاترا کے نتیجہ میں راہل گاندھی کی بڑھتی مقبولیت اور پٹنہ میں حزب اختلاف کی میٹنگ میں بجنے والا اتحاد کا بگل جو منظرنامہ پیش کر رہے ہیں، اس میں بی جے پی کو ایک ایسی وہیل چیئر کی ضرورت ہے جس پر بیٹھ کر وہ اقتدار کی کرسی پر پہنچ سکے۔ بی جے پی کا ایجنڈا بالکل واضح ہے۔ اپنے ووٹ بینک کو یہ پیغام دینا کہ ہم آج بھی تین طلاق اورسی اے اے والی حکمت عملی پہ قائم ہیں۔ پسماندہ مسلمانوں کی ہمدردی کا ہمارا نعرہ صرف ایک انتخابی حکمت عملی ہے، اس سے کنفیوز ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ کو خوش رکھنے کے لیے ہم مسلمانوں اور دلتوں سے نفرت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
[email protected]