ڈیٹا تحفظ یا شہریوں کی نگرانی ؟

0

اگلے ہفتہ شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں حکومت بڑی تیاریوں کے ساتھ شریک ہونے والی ہے۔نئی پارلیمنٹ بلڈنگ میں ہونے والا یہ پہلا اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم ثابت ہونے والا ہے کہ اس میں حکومت تقریباً ایک درجن بل پیش کرکے اسے قانونی شکل دینے کی تیاری کررہی ہے۔ان میں کئی ایسے بل بھی شامل ہیں جن کے مسودہ پر حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ عوام کا ایک قابل لحاظ طبقہ بھی معترض ہے لیکن اعتراضات کے باوجود مرکزی کابینہ سے یہ بل پاس ہوچکے ہیں، اب ایوان میں انہیں رکھا جانا ہے۔ جہاں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں عددی برتری کا استعمال کرکے اسے قانون کا درجہ دلائیں گی۔
مانسون اجلاس میں جو بل پیش ہونے ہیں، ان میں سب سے اہم ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل2022ہے۔اس بل مسودہ کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو دوسرے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔خاص طور پر یوروپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات ہمالیائی اونچائی کو پہنچ سکتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بل دنیا کے سب سے بے عیب ذاتی ڈیٹا پروٹیکشن سسٹم سمجھے جانے والے یوروپی یونین کے جنرل ڈیٹاپروٹیکشن رولزکو سامنے رکھ کر تیار کیاگیا ہے۔یہ بل گزشتہ سرمائی اجلاس میں بھی پیش کیاگیاتھا لیکن بعد میں اس بل کو حکومت نے یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا کہ اس میں چند تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اب کچھ تبدیلیوںکے ساتھ یہ بل دوبارہ ایوان میں پیش کیا جارہا ہے۔ نئے مسودہ بل میں کچھ تبدیلیاں بہترہیں تو کچھ متنازع حصے اب بھی باقی ہیںجن کی وجہ سے مختلف حلقوں میںتشویش پائی جارہی ہے۔
بہترتبدیلیوں میں لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت، ہندوستان سے باہر ڈیٹا بھیجنے کی نگرانی اور خلاف ورزیوں پر سزاو جرمانے کاالتزام ہے، جس کے تحت اگر کوئی ادارہ ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل2022کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر 500 کروڑ روپے کا جرمانہ مقرر کیاگیا ہے، اس سے قبل جرمانہ کی رقم15کروڑ روپے تھی۔اس کے ساتھ ایک ریگولیٹری بورڈ کے قیام کی تجویز بھی ہے جو قانون بننے کے بعد اس کے نفاذ کی نگرانی کرے گا نیز صارفین کی شکایت بھی سنے گا۔ اس کے ساتھ آزادڈیٹا آڈیٹر بھی مقرر کیاجائے گا جو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کی تعمیل کا جائزہ لے گا۔
ان روشن نکات کے ساتھ ساتھ اس بل کے کئی تاریک پہلو بھی ہیں جن کا اس بل میں رعایت اور چھوٹ کے زمرے میں ذکر کیاگیا ہے۔بل کے مطابق حکومت کو قومی سلامتی، خارجہ تعلقات، امن عامہ جیسے معاملات میں اپنی کسی ایجنسی کو اپنی مرضی کے مطابق اس قانون سے استثنیٰ دے سکتی ہے۔نیز ’قومی سلامتی‘ کے مفاد میں ڈیٹا کے مالک کی رضامندی کے بغیر حکومت کی طرف سے کسی بھی ڈیٹا کو غیر معینہ مدت تک جمع کرنے کی چھوٹ حاصل ہوگی اور حکومت کو یہ حق بھی ہوگا کہ وہ اپنے فائدے کیلئے اس ڈیٹا کو جیسے چاہے، استعمال کرسکتی ہے، اس پر رازداری کا بنیادی قانون بھی اثر انداز نہیں ہوگا۔اس کے ساتھ ہی ایک اور خطرناک تجویز آن لائن فیکٹ چیکر پلیٹ فارمز کو رجسٹر کرنے کی بھی ہے۔اس بل کے قانون بن جانے کی صورت میں حقائق کا پتہ لگانے والے آن لائن ادارے جو اب تک حکومت اوراس کے ہمنوائوں کے حقائق بے نقاب کرتے رہیں، کوخود کو رجسٹر کرانا ہوگا ورنہ وہ غیرقانونی سمجھے جائیں گے۔
ان تجاویز کی وجہ سے جہاں اس خدشہ کو تقویت ملتی ہے کہ مرکزی حکومت کے ماتحت کوئی بھی محکمہ ’قومی مفاد‘ کے تحفظ کے نام پرخود کو انفارمیشن سیکورٹی ایکٹ کی پابندیوں سے آزاد قرار دے سکتا ہے،وہیں یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ مختلف قوانین کی صورت میں مرکزی حکومت زیادہ سے زیادہ اختیارات اورقانونی چھوٹ حاصل کررہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسی کئی مثالیں دیکھی جاچکی ہیں۔اب ڈیٹا کی حفاظت کے حوالے سے حکومت ایسے اختیارات اور قانونی چھوٹ حاصل کررہی ہے جو عوام پر کنٹرول اور حکومتی نگرانی کے ضمن میں آتا ہے۔ اپنی اس چھوٹ سے حکومت لوگوں کی نجی اورعوامی زندگی کو بھی پابند بنانے کی راہ ہموار کررہی ہے۔ چند سال قبل سپریم کورٹ نے شہری کی ذاتی معلومات کی رازداری کو آئین کے تحت بنیادی حق قرار دیاتھا لیکن حکومت نت نئی راہ نکال کر اس بنیادی حق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ آدھار پر مبنی معلومات پہلے سے ہی حکومت کے قبضہ میں ہیں۔ کووڈ ٹیکہ کاری کے نام پر ازسرنو عوام کا ڈیٹا حکومت نے اکٹھاکیا، اب ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل2022کی یہ تجاویز بتارہی ہیں کہ حکومت عوام کو ڈیٹا تحفظ کا کھلونا دے کر نگرانی کا ایسا مکمل اختیار حاصل کرناچاہتی ہے جس کے ذریعہ وہ ہرشہری کا ہر لمحہ اپنی نظروں میںرکھ سکے۔ کسی بھی حکومت کا یہ بے لگام اقتدار اوراپنے شہریوںکی ذات پر نگرانی کا مکمل اختیار قومی مفاد کے علی الرغم ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS