عمیر انس
آپ بہوجن سماج پارٹی کے لوگوں سے پوچھیں کہ آپ کی سیاست کہ ریڈ لائن کیا ہے؟ جواب ہوگا ریزرویشن!
آپ بھاجپا سے پوچھیں کہ آپکی ریڈ لائن کیا ہے؟ جواب ہوگا بابری مسجد، یکساں سول کوڈ، اور کشمیر میںآرٹیکل تین سو ستر!
آپ مسلمان جماعتوں اور رہنمائوں سے پوچھیں کہ آپ کی سیاست کہ ریڈ لائن کیا ہے؟ آپ شاید بہت واضح جواب نہ پائیں۔ دراصل مسلم سیاست کے سب سے بنیادی اور پھر دوسرے نمبر کے سب سے اہم مسائل کیا ہیں یہ آپ کومسلم سیاست دانوں کی تقریروں سے کبھی پتہ ہی نہیں چلے گا، مسلم تنظیموں اور ملی قیادت کی جتنی بھی مفروضہ ریڈ لائن تھیں وہ سب ایک ایک کرکے پامال ہو رہی ہیں،کیونکہ انکی ریڈ لائن ہی ایسی تھیں کہ جس کے پیچھے کوئی منطق تھی اور نہ کوئی واضح لائحہ عمل۔ میرے نزدیک مسلم سیاست کے ہر فرقے، طبقہ فکر، پارٹی، علاقے کے لیے خواہ وہ سیکولر ہو یا بھاجپا میں، وہ شمالی ہند میں ہو یا جنوب میں، وہ خود کی سیاسی جماعت کا لیڈر ہو یا صرف پریشر گروپ، اس کی سیاسی گفتگو میں ایک ریڈ لائن والی فکر کا پیدا ہونا اور اس کے دفاع اور حصول کے لیے پوری قوت اور جذبات لگانا اور اس کو ایسا بنا کر پیش کرنا جس سے سارے مسلم عوام اور انکے غیر مسلم خیر خواہان کو اطمینان ہو جائے کہ ان مطالبات کے بغیر انکا مستقبل اندھیرے میں ہے اور ان کا سیاسی وجود بے معنی ہے۔ یہ بات میں اس تجربے سے کہ رہا ہوں کہ جب جب میں سیاسی تقریریں اور گفتگو سنتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم سیاست بھاجپا کی اسکیم کے مطابق علیحدگی پسند پارٹیوں کے طور پر تو بدنام ہیں لیکن وہ اپنے واضح اور مطمئن کر دینے والے موضوعات اور مطالبات کی وجہ سے نہیں جانے جاتے۔ میں اس مضمون میں ایسے چند موضوعات کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں، لیکن انکا فائنل لسٹ اور شکل تو خود مسلم سیاسی جماعتوں اورلیڈروں کو ہی بنانا ہوگا۔ لیکن مسلم عوام کا ایک رکن ہونے کے ناطے میری توقعات میں حسب ذیل موضوعات کے بغیر مسلم سیاست کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
سماجی انصاف اور ترقی میں مسلمانوں کی معاشی بدحالی: مسلم سیاست کو مسلمانوں کی معاشی بدحالی پر اتنا زیادہ شور مچانے کی ضرورت ہے کہ ان کے درمیان ہر غیر مسلم۔سیاسی شخص کو یقین ہو جائے کہ یہ ایک سچ مچ میں سنگین مسئلہ ہے۔ میں دعوے کی حد تک کہ سکتا ہوں کہ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کے نزدیک مسلمانوں کی غربت اور بدحالی کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔جمہوری سیاست کاسیدھا اصول ہے کہ آپ کے جائز مطالبات لکھنوی تہذیب کے پہلے آپ والے ادب سے حاصل نہیں ہونگے، کس قدر شرم کا مقام ہے کہ بعض دفعہ خود مسلم لیڈروں کو ان کی وزارت کے دوران کروڑوں روپے مسلمانوں کی ترقیات کے لیے مختص کیے گئے اور ان حضرات کی بے توجہی سے کروڑوں روپیہ بغیر خرچ کیے واپس چلے گئے۔اگر یہی حرکت کوئی شیڈول کاسٹ کا وزیر کرتا تو اسے انکی کاسٹ کے لوگ اپنے معاشرے میں گھسنے نہیں دیتے، لیکن آپ سوچیں کہ جب مسلمان عوام کے لیے کروڑوں روپے حکومت کے دینے کے باوجود خرچ نہیں ہوئے تو مسلم عوام کارد عمل کیا تھا؟ کچھ نہیں، سب بالکل نارمل تھا، کسی ایک جماعت نے بھی شاید ایک پریس ریلیز تک جاری نہیں کی ہوگی، احتجاجی مظاہرے تو بہت دور کی بات۔جب آپ کی سیاست کو حکومت سے ملے ہوئے پیسوں کے خرچ نہ ہونے پر کوئی ناراضگی نہیں ہوتی تو نئے کاموں کے لیے اور مزید پیسوں کو منظور کرنے والے مطالبوں کی آواز کیا خاک سنائی دیتی۔ ابھی مولانا آزاد فیلوشپ ختم کی گئی، دیگر اسکالرشپ ختم کی گئی اور مسلم سیاست کہ شرمناک بے بسی سب کے سامنے واضح تھی۔شیڈول کاسٹ کا یہ معاملہ ہوتا تو سڑکیں جام ہوتیں، پارلیمنٹ مارچ ہوتا، سیاسی پارٹیاں احتجاج کرتیں، غرض جمہوری سیاست کے سارے نسخے آزمائے جاتے۔ یتیم مسلم سیاست کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لہذا ایک نئی سیاسی بیداری کے لیے لازمی ہے کہ مسلمان اپنے معاشی حقوق اور مسائل کے لیے پوری قوت اور شدت سے چیخنا شروع کریں، ایک ایک اعداد و شمار ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے کان میں باربار تیزآواز میں پہنچاتے رہیں، اور معاشی پسماندگی اور مسلم عوام میں ناراضگی اور غصہ کا اور بیداری اور جد وجہد کی شدت میں اضافہ کرتے رہیں۔ افسوس کہ مسلم سیاست میں اشرف مسلمانوں کے تسلط کی وجہ سے غربت اور پسماندگی کبھی ایک سنجیدہ سیاست کی ریڈ لائن بننے میں کامیاب نہیں ہوئی ورنہ ملک کی کسی سیاسی جماعت کے انتخابی پروگرام میں اور انکی عوامی تقریروں سے مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا موضوع کبھی غائب نہیں ہوتا، بلکہ ممبر اسمبلی بھی اپنے علاقے میں معاشی پسماندگی کے موضوع کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہ لیتا۔ایسا ہی ایک دوسرا ناقابل فراموش موضوع پولیس انتظامیہ ہے۔اس موضوع پر سبھی مسلم جماعتوں کو اتفاق ہے بلکہ شکایت ہے کہ ملک کے پولس نظام مسلمانوں کے تئیں منصفانہ نہیں ہے بلکہ متعدد موقعوں پر ظالمانہ بھی ثابت ہوا ہے،لیکن یہ شکایت کبھی ایک سیاسی مطالبہ کی شکل اختیار نہیں کر سکی، مسلمان ممبر پارلیمنٹ اور اسمبلی نے شاید ہی کبھی ہائوس میں اپنی رسمی تقریروں اور سوالوں میں اس موضوع پرمدلل گفتگو کی ہو۔ جب آپکے اپنے نمائندوں کو اس موضوع پر ہائوس میں گفتگو کا موقع نہیں ہے تو آپکے خیر خواہان غیر مسلم نمائندوں سے آپ کیسے امید کریں۔معاملہ صرف پولس میں مسلم افسروں اور جوانوں کی نمائندگی کا نہیں ہے بلکہ پولس کی اجتماعی سوچ کا ہے جو ملک کے موجودہ مسلم مخالف جذباتی سیاست سے متاثر ہو چکی ہے، ایک منصفانہ پولس ایک مہذب معاشرے کی پہلی ضرورت ہے، اور اس معاملے میں پولس کی نا انصافیوں کا شکار صرف مسلمان نہیں ہزاروں غیر مسلم بھی ہیں۔ اس لیے پولس نظام میں سبھی طبقات کی نمائندگی کے ساتھ پولس کو معاشرے کے لیے زیادہ حساس بنانے اور قانون کا پابندبنانے کی ضرورت ہے، لیکن چونکہ مسلمان سب سے زیادہ شکار ہیں اس لیے ان کواس نظام کی کمزوریوںکو پارلیمنٹ سے عدالت اور سماجی اداروں میں پورے دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کاہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں اور پولس کے درمیان ایک دشمنان فضا پیدا کے جائے لیکن پولس کو سماج کے سبھی طبقات کے لیے حساس اور فکرمند بنانے کی ذمہ داری ہے اور یہ کم صرف اس وجہ سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس کے کہنے والے مسلمان ہیں، لیکن مسلم سیاست میں پولس اصلاحات کاموضوع انتہائی اہم ضرورت ہے تاکہ سبھی سیاسی جماعتیں اسے سنجیدگی سے لیں اور اس موضوع پرمسلمعوام کی بے اطمینانی کو دور کرنے کے لیے واضح قدم اٹھائیں۔ (آخری قسط)