سروج کمار
وبا کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لینے کے بعد لگتا ہے کہ اب ہمیں بے روزگاری کے ساتھ بھی جینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ لیکن بے روزگاری کے ساتھ زندہ رہ پانا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا دعویٰ، آکسیجن اور ٹیکہ کے بغیر وبا کے ساتھ جینا۔ وبا کا تو ہم نے ٹیکہ بنا لیا، لیکن بے روزگاری کا فی الحال کوئی توڑ ہاتھ نہیں لگا ہے۔ اس سمت میں کوئی ٹھوس پہل بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ اب تو یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ بے روزگاری کہیں وبا سے آگے نہ نکل جائے۔ وبا کی رفتار تھمنے کے بعد بھی بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وبا کی مدت کے دوران ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی نوکریاں جاچکی ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے مطابق گزشتہ ماہ یعنی جولائی میں ہی 32لاکھ تنخواہ پانے والوں کی نوکریاںچلی گئیں۔ اگست میں بھی بے روزگاری کی شرح مسلسل7فیصد سے اوپر برقرار ہے۔ یہ اعدادوشمار خوفناک ہیں۔
پالیسی کی خامیوں کے سبب بے روزگاری کی حالت پہلے سے بری تھی۔ وبا نے اسے بدتر بنادیا ہے۔ پالیسی روزگار پیدا کرنے کی ہونی چاہیے، لیکن ساری کوششیں شرح نمو حاصل کرنے کی ہیں۔ پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ شرح نمو میں اضافہ ہوگا تو روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ لیکن معاشیات کا یہ طریقہ بہت پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔ ہم بے روزگاری کی شرح نمو سے گزر رہے ہیں۔ پھر بھی ہم اس پالیسی سے ناطے توڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں، اس کا جواب جواب دینے والے ہی دے سکتے ہیں۔ شرح نمو کی پالیسی کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ کوئی تین فیصد لوگوں کی آمدنی وبا کے دوران بھی بڑھی ہے، جبکہ باقی آبادی بے روزگاری اور غریبی کی بھینٹ چڑھنے کے لیے مجبور ہے۔
شرح نمو کی سمت میں ملک میں نوٹ بندی (8نومبر 2016) اور جی ایس ٹی(یکم جولائی 2017) کی شکل میں کی گئی دو بڑی معاشی اصلاحات اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپائیں۔ البتہ جو تھا وہ بھی چلا گیا۔ دونوں اصلاحات کے بعد جولائی 2017سے جون 2018کے دوران بے روزگاری کی شرح 45سال کی اعلیٰ سطح 6.1فیصد پر پہنچ گئی۔ نیشنل سیمپل سروے آفس(این ایس ایس او) کی رپورٹ نے تو بے روزگاری کی شرح 6.1فیصد کے بدلے 8.9فیصد بتائی تھی۔ ملک میں بے روزگاری کی یہ ایک بے مثال سطح (unprecedented level) رہی ہے۔ اس کے بعد جولائی 2018سے جون 2019کے دوران بے روزگاری کی شرح میں تھوڑی بہتری ضرور ہوئی اور یہ 5.8فیصد پر آگئی۔ لیکن گزشتہ سال وبا نے حالات اتنے بدتر بنادیے کہ ہندوستان اپنے پڑوسیوں سے بھی بری حالت میں پہنچ گیا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سال 2020 کے دوران جہاں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 7.11فیصد رہی، وہیں چین میں یہ پانچ فیصد، بنگلہ دیش میں 5.30 فیصد، پاکستان میں 4.65فیصد، سری لنکا میں 4.48 فیصد، نیپال میں 4.44فیصد اور بھوٹان میں 3.74فیصد درج کی گئی۔ دنیا کی بات کریں تو 2020میں اوسط عالمی بے روزگاری کی شرح 6.47فیصد تھی۔ موجودہ سال میں بھی ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح 7فیصد سے اوپر رہنے کے اشارے ہیں۔
معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کررہے مزدوروں کی تعداد میں کمی وبا کے سبب بند ہوئی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے سمجھی گئی تھی۔ امید تھی کہ معاشی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد مزدور واپس زرعی شعبہ سے ان شعبوں میں لوٹ آئیں گے۔ لیکن کورونا کی دوسرے لہر نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔ سی ایم آئی ای کے مطابق 2020-21 (جوالائی سے جون) کے دوران بھی مزدوروں کی دوسرے شعبوں سے زرعی شعبہ کی طرف ہجرت جاری ہے۔ اس مدت میں زراعت میں کام کررہے مزدوروں کی حصہ داری 38 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد ہوگئی۔
اپنے ملک میں اونچی بے روزگاری کی شرح کے پیچھے ایک بڑا سبب پبلک سیکٹر کا مسلسل سمٹتے جانا/محدود ہوتے جانا بھی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جن ممالک میں پبلک سیکٹر مضبوط ہیں، وہاں بے روزگاری کی شرح اسی تناسب میں کم ہے۔ پبلک سیکٹر کی مضبوطی کے معاملہ میں ہندوستان کی حالت دنیا تو دور اپنے پڑوسیوں سے بھی خراب ہے۔ آئی ایل او کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی کل افرادی قوت کا محض3.8فیصد ہی پبلک سیکٹر میں کام کرتا ہے۔ جب کہ چین میں یہ اعدادوشمار تقریباً پچاس فیصد، پاکستان میں تقریباً ساڑھے 7فیصد اور بنگلہ دیش میں تقریباً 8فیصد ہے۔ روزگار کے لحاظ سے پبلک سیکٹر کو اچھا اس لیے سمجھا جاتا ہے کیوں کہ یہاں نوکریاں پرائیویٹ سیکٹر کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہوتی ہیں۔ بحران کے دوران میں بھی ساتھ پبلک سیکٹر ہی دیتا ہے۔ وبا کے دوران یہ کلیئر ہوچکا ہے۔ لیکن افسوس یہ کہ ہماری پالیسیاں پرائیویٹ سیکٹر کے نام ہیں، جس کا مقصد روزگار پیدا کرنا نہیں، زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ پبلک سیکٹر میں ایک تو مواقع کم ہوتے جارہے ہیں اور پھر جہاں مواقع ہیں بھی، وہاں تقرریاں نہیں ہورہی ہیں۔ ایک مطالعہ کے مطابق ملک میں 60لاکھ سے زیادہ سرکاری آسامیاں خالی ہیں۔ اس میں 8لاکھ 72ہزار سے زیادہ خالی آسامیاں اکیلے مرکزی سرکار میں ہیں۔ لیکن مالی سال2020-21میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی تقرریاں 3سال کی نچلی سطح پر پہنچ گئیں۔ نیشنل پنشن سسٹم(این پی ایس) کے پے رول کے اعدادوشمار کے مطابق مرکزی حکومت کی تقرریوں میں جہاں 27فیصد کی کمی رہی، وہیں ریاستی حکومتوں نے 21فیصد کم تقرریاں کیں۔
ملک میں تقریباً 19فیصد افرادی قوت ہی منظم شعبہ میں کام کرتی ہے۔ اس میں تقریباً چار فیصد حصہ پبلک سیکٹر کا نکال دیں تو پرائیویٹ سیکٹر میں تقریباً 15فیصد نوکریاں ہی ایسی ہیں جہاں مزدور بہتر حالت میں کام کرتے ہیں۔ باقی 81فیصد افرادی قوت غیرمنظم شعبہ میں اوپر والے کے بھروسے ہے۔ افرادی قوت کے اس بڑے حصہ کے پاس کب کام ہے، کب نہیں ہے اور ہے بھی تو کس درجہ کا، کچھ یقینی صورت حال نہیں ہے۔ یعنی بے روزگاری کی تلوار سر پر ہمیشہ لٹکی رہتی ہے۔ غیرمنظم شعبہ کی اس 81فیصد افرادی قوت کا تقریباً آدھا حصہ زرعی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ زراعت میں ایک تو یومیہ اجرت سب سے کم ہے اور پھر ہمیشہ کام بھی نہیں رہتا، لہٰذا یہاں مزدور تبھی آتے ہیں، جب زیادہ یومیہ اجرت کے دوسرے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ زرعی شعبہ میں مزدوروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں جاری پی ایل ایف ایس(Periodic Labor Force Survey) کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2019سے جون2020کے دوران زراعت میں کام کررہے مزدوروں کی حصہ داری میں اضافہ ہوکر 45.6فیصد ہوگیا، جو 2018-19میں 42.5فیصد تھا۔ حالاں کہ سی ایم آئی ای کے کنزیومر پرامڈس ہاؤس ہولڈ سروے(سی پی ایچ ایس) میں یہ حصہ داری 38فیصد بتائی گئی ہے جو 2018-19 میں 36.1فیصد تھی۔ زراعت میں مزدوروں کی بڑی حصہ داری میں بھی سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور یہ بھی کہ کل کام کرنے والی خواتین کا 60فیصد حصہ زرعی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روزگار بازار میں خواتین کی حالت کیا ہے۔
معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کررہے مزدوروں کی تعداد میں کمی وبا کے سبب بند ہوئی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے سمجھی گئی تھی۔ امید تھی کہ معاشی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد مزدور واپس زرعی شعبہ سے ان شعبوں میں لوٹ آئیں گے۔ لیکن کورونا کی دوسرے لہر نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔ سی ایم آئی ای کے مطابق 2020-21(جوالائی سے جون) کے دوران بھی مزدوروں کی دوسرے شعبوں سے زرعی شعبہ کی طرف ہجرت جاری ہے۔ اس مدت میں زراعت میں کام کررہے مزدوروں کی حصہ داری 38فیصد سے بڑھ کر 39.4فیصد ہوگئی۔ اہم یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں کام کررہے مزدوروں کی حصہ داری 9.4فیصد سے کم ہوکر 7.3فیصد ہوگئی۔ ہاں، تعمیراتی شعبہ میں بہتری آئی ہے، جہاں مزدوروں کی حصہ داری 2020-21کی مدت میں 13.5فیصد سے بڑھ کر 15.9 فیصد ہوگئی۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ سے غیرمنظم شعبہ میں نوکریاں کچھ حد تک واپس آسکتی ہیں۔ لیکن اچھی نوکریوں کا قحط فی الحال برقرار رہنے والا ہے، کیوں کہ تنخواہ میں کٹوتی کا حصہ ہی ابھی تک بحال نہیں ہوپایا ہے۔ حکومت کی توجہ کارپوریٹ سیکٹر کی مضبوطی پر ہے، جہاں سے شرح نمو تو حاصل ہوسکتی ہے، لیکن روزگار کی بات بے معنی ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)