نیشنل منی ٹائزیشن پائپ لائن اسکیم

0
Image: abinet

منتخب جمہوری حکومتیں ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ترقیاتی منصوبے بناتی ہیں۔معاشی اور اقتصادی استحکام کیلئے اپنے موجودہ انفرااسٹرکچر اور وسائل کو وسعت دیتی ہیںلیکن ہندوستان میں اس کے برخلاف ہو رہاہے۔ مرکز کی مودی حکومت ملک کے موجود انفرااسٹرکچر، اثاثے اور وسائل کوہی فروخت کررہی ہے۔عوامی املاک اور کمپنیوں یا ان کے حصص کی فروخت کے مسلسل عمل کو جاری رکھتے ہوئے مودی حکومت نے کچھ اور اثاثوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریلوے، ہوا بازی، بجلی، سڑکیں اور یہاں تک کہ اسٹیڈیم جیسی املاک بھی لیز پر دے کر حکومت نے 6 لاکھ کروڑ روپے کمانے کی اسکیم وضع کرلی ہے۔مرکزی وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے گزشتہ دنوں باقاعدہ اس کا اعلان کیا ہے۔ نیشنل منی ٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی )کے نام سے سامنے آنے والی اس اسکیم میں پورے ہندوستان کو ہی ’ سیل ‘ پر چڑھا دیاگیا ہے۔ یہ اسکیم گزشتہ 7 برسوں سے جاری مودی حکومت کی سرمایہ کشی یا ڈس انویسٹمینٹ کی ہی دوسری شکل ہے جسے الگ نام دیتے ہوئے منی ٹائزیشن یعنی روپیہ کمانے سے تعبیر کیاگیا ہے۔این ایم پی کے تحت حکومت مالی سال 2022 سے مالی سال 2025 تک 4 سال کی مدت میں بنیادی اثاثے فروخت کرکے یہ رقم حاصل کرے گی۔
حکومت جن قومی اثاثوں اور املاک کو بیچنے پر تلی ہوئی ہے، وہ گزشتہ 70برسوں کے دوران ملک کے دور اندیش قائدین کی محنت اورعوام کے خون پسینہ کی کمائی سے بنائے گئے ہیں۔ان میں بہت سی ایسی کمپنیاں اورا دارے ہیں جو انتہائی منافع میں چل رہے ہیں اور ان کے بل پر ہی حکومت کا بجٹ چلتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے بہت سی فلاحی اسکیمیں بھی رو بہ عمل ہیں۔ لیکن ’دیش نہیں بکنے دوں گا‘ کا نعرہ لگاکر عنان حکومت سنبھالنے والی مودی حکومت نے ابتدائی برسوں میں ہی اپنا مطمح نظر واضح کردیاتھا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے اوراسی نظریہ کے تحت اس نے قومی املاک کو بیچنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔عوام کے ذہنوں میں یہ بات بھی اتاری گئی کہ سرکاری کمپنیاں حکومت اور عوام پر بوجھ ہیں، ان میں کام کرنے والے ملازمین نااہل اوربدعنوان ہیں اس لیے حکومت کو جلد از جلد یہ بوجھ اتار پھینکنا چاہیے۔اور پھر ایک ایک کرکے قومی اثاثوں کو صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچنا شروع کردیا گیا۔
یہ درست ہے کہ نئی عالمی اقتصادی پس منظر میں ’کھلا بازار‘ ضروری ہے اور اس کیلئے نجکاری اور سرمایہ کاری کوبڑھاوا دیا جانا چاہیے۔اس سے پہلے یوپی اے حکومت میں بھی کئی ایک ادارے نجی ہاتھوں میں سونپے گئے ہیں لیکن اس کے برعکس موجودہ حکومت جس بے قابو انداز میں عوامی املاک فروخت کررہی ہے، اسے کسی بھی حال میں ملک کے مفاد میں نہیں کہا جاسکتا ہے۔ منافع بخش اداروں کو یہ کہہ کر بیچاجارہاہے کہ یہ عوام پر بوجھ ہیں لیکن یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اگر یہ ادارے اور کمپنیاں نقصان میں ہیں تو پھر نجی سرمایہ دارا ور صنعت کار انہیں کیوں خرید رہے ہیں؟کوئی بھی سرمایہ دار یا نجی کمپنی جب کسی دوسری کمپنی یا کسی سرکاری ادارے کو خریدتی ہے تو اس کا ایک ہی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ نقصان میں چلنے والی کمپنیاں یا ادارے خرید کر سرمایہ دار اپنی رقم ضائع نہیں کریں گے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی صورت نکالیں گے۔ اس کے نتیجہ میں عوام پر مالی بوجھ میں اضافہ ہوگا۔پیداوار گراں ہوکر عوام کی رسائی سے بھی دور ہوجائیں گی۔اس کی مثال ریلوے اسٹیشنوں، ٹرینوں اور ہوائی اڈوں کی فروخت سے لگائی جاسکتی ہے، اب تک جن اسٹیشنوں اور ٹرینوںکو فروخت کیاگیا ہے وہاں پلیٹ فارم ٹکٹ کی قیمت اور ٹرین کا سفر عام آدمی کیلئے مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریلوے ملازمین کا مستقبل بھی بحران کی زد میں ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ سرکاری کمپنیوں کوخریدنے والے صنعت کاروں کے منافع میں ہمالیائی اضافہ ہوا ہے۔ جن کمپنیوں میں نجی سرمایہ کاری بڑھی ہے، وہاںملازمین کی چھٹائی اور نئی بھرتیوں پر پابندی لگاکر عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت کے حوالے کردیاگیا۔
حکومت کی تیز تر نجکاری اور ہر ادارے کو بیچ کر پیسہ کمانے کی پالیسی سے جہاں ایک طرف سرمایہ کا ارتکاز ہوگا،وہیں غربت بھی بڑھے گی۔یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ دولت اور سرمایہ کے ارتکاز سے تمام وسائل سمٹ کر چند ہاتھوں میں چلے آئیں گے جوغربت اور بے روزگاری میں بھیانک اضافہ کا سبب ہوگا۔
اگر حکومت اسی طرح عوامی کمپنیوں اورا ثاثوں کو فروخت کرتی رہی تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب سارے اثاثے فروخت ہوجائیں گے۔اس وقت نہ تو حکومت کے پاس انتظامی ضروریات پوری کرنے کیلئے رقم ہوگی اور نہ ہی فلاحی منصوبے چلانے کا کوئی ذریعہ باقی بچے گا۔ان ہی وجوہات کی بنا پر ممتاز ماہرین معاشیات نے اس پالیسی کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ حکومت ’پیسہ کمانے ‘ کیلئے قومی اثاثے بیچنے اور70برسوں کی حصولیابی کو مٹی میں ملانے کے بجائے کوئی دوسرا ذریعہ ڈھونڈے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS