کئی ملکوں میںبے روزگاری بھتہ دیا جاتا ہے تاکہ بے روزگار لوگ اپنی زندگی کسی طرح بسر کر سکیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ کسی ملک میں شاندار بے روزگاری بھتہ دیا جاتا ہے اور کسی ملک میں اطمینان بخش۔ ڈنمارک میں اگر کسی شخص کی نوکری چلی جائے تو اسے زیادہ فکر نہیں کرنی پڑتی، کیونکہ اس کی آخری تنخواہ کا 90 فیصد بے روزگاری بھتے کے طور پر دیا جاتا ہے اور وہ بھی دو سال تک۔ ڈنمارک کی طرح برطانیہ میں بے روزگاری بھتہ دو سال تک تو نہیں، البتہ 6 مہینے تک دیا جاتا ہے۔ سویڈین میں اگر کوئی شخص 5 برس نوکری کر لیتا ہے تو پھر اسے گزر بسر کے لیے بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں کرنی پڑتی،کیونکہ وہاں 5 برس نوکری کرنے والے لوگ پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ امریکہ میں بھی بے روزگاروں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ وہاں اگر کسی کی نوکری چلی جاتی ہے تو اسے اس وقت تک بے روزگاری بھتہ دیا جاتا ہے جب تک نوکری مل نہیں جاتی، اس لیے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھنے پر عام لوگوں سے زیادہ تشویش میں حکومت مبتلا ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ بڑھتی بے روزگاری کا منفی اثر سرکاری خزانے پر پڑے گا۔ امریکہ، برطانیہ، ڈنمارک، سویڈن جیسے ملکوں میں بے روزگاری بھتے کے نظام پر غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا اچھا استعمال ہو رہا ہے، ان ملکوں کی حکومتوں نے اپنے لوگوں کی ضرورتوں کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔ بات اگر اپنے ملک ہندوستان کی کی جائے تو یہاں سینٹرلائزڈ بے روزگاری بھتے کی اسکیم بند ہو چکی ہے۔ ریاستی سرکاریں اپنے اپنے حساب سے بے روزگاروں کو بھتہ دیتی ہیں۔ n
بے روزگاری بھتہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS