طب یونانی:صحت کے جدید چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک جامع نظام

0

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

ہندوستان میں جہاں صحت عامہ کو بہتر بنانے کے لیے صحتی نگہداشت کی رسائی اور معیار کو بڑھانے کے لیے و یکسی نیشن مہم،امراض سے آگاہی کی مہم اور ڈیجیٹل صحت کے اقدامات جاری ہیں، ہندوستان کا صحت عامہ کا نظام ترقی کر رہا ہے،وہیںصحت کے کئی چیلنجز بھی برقرار ہیں۔جن میں غیر متعدی امراض(NCDs) کابڑھتا بوجھ، متعدی امراض اور ماں وبچے کی صحت کے مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں۔غیر متعدی امراض بیماریوں کے ایک وسیع گروپ کو کہتے ہیں جس میں دل کی بیماریاں، کینسر، ذیابیطس اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً38ملین یعنی68فیصداور ہندوستان میں ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً60فیصد میں ان ہی غیر متعدی امراض کا حصہ ہے۔
عالمی صحت کے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں ایک قدیم طب جسے طب یونانی کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ صحت کے بے شمار چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک ممکنہ حل کے طور پر ابھری ہے۔ طب یونانی ایک قدیم طریقہ علاج ہے،جوصحت عامہ کے مسائل سے لے کر نئی متعدی بیماریوں، گرم ممالک میں پائے جانے والے امراض یا ٹراپیکل ڈزیزاور بچوں کے مسائل پر ایک جامع نقطہ نظر پیش کرتی ہے جو عصری صحتی نظام میں توجہ اور انضمام کی مستحق ہے۔ہماری صحت کے مسائل اکثر طرز زندگی، ماحولیاتی حالات اور صحتی نگہداشت تک رسائی نہ ہونے جیسے عوامل سے پیدا ہوتے ہیں۔ یونانی ادویات، احتیاطی نگہداشت، غذائی تبدیلیوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں انسانی مزاج سے ہم آہنگ ہوتی ہیں جو صحت عامہ کے اقدامات کے ساتھ اچھی طرح سے مطابقت رکھتی ہیں۔یونانی طب، ذاتی علاج اور جسم میں بنیادی عدم توازن کو دور کرنے پر اپنی توجہ کی وجہ سے ایک منفرد نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔طب یونانی کا وہ اصول جو جسم کو متوازن اور اس کے ہم آہنگ ہونے کی وکالت کرتا ہے،اسے مزاج کہا جاتا ہے۔جو انفرادی یا شخصی علاج کا اہم جز ہے،جس کے ذریعے کمیونٹی کی صحت کے مسائل کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ صحت عامہ کی مہم میں طب یونانی کے غذائی رہنما خطوط اور تناؤکو ختم کرنے کے طریقے کمیونٹی کو اپنی صحت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے بااختیار بنا سکتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزاء پر مشتمل یونانی ادویات اور غذائی سفارشات NCDs کے روایتی علاج کی تکمیل کرسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر آملہ اور گُگل(Guggul) جیسی یونانی جڑی بوٹیوں کے استعمال پر تحقیق ہوچکی ہیں، جن سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ذیابیطس اور قلبی امراض جیسے امراض میں اپنی افادیت رکھتی ہیں۔NCDs کی روک تھام کے پروگراموں میں یونانی طریقوں کو ضم کرنے سے اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ٹراپیکل بیماریاں، جو اکثر کمزور آبادی کو متاثر کرتی ہیں، ان کے لیے جامع اور قابل رسائی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونانی ادویات، جسم کے مدافعتی نظام کو بڑھانے اور قدرتی علاج کے استعمال کی وجہ سے ان بیماریوں کے خلاف کافی بہتر انداز میںمو ثرہوسکتی ہیں۔اسی طرح جڑی بوٹیوں کے مرکبات اور غذائی سفارشات بچپن کی عام بیماریوں کے لیے محفوظ متبادل پیش کرسکتی ہیں، ممکنہ ضمنی اثرات کے ساتھ روایتی ادویات پر انحصار کو کم کرسکتی ہیں لیکن صحتی نگہداشت کے مرکزی دھارے میں یونانی طب کے انضمام کے لیے ثبوت پر مبنی علاج کے لیے پر عزم ہونا ہوگا۔ جس کے لیے تحقیق بین الاقوامی معیارات کے مطابق کی جانی چاہیے، جس میں یونانی علاج کی افادیت اور اس کے محفوظ ہونے کی توثیق کرنے کے لیے سخت طریقوں کو شامل کیا جائے۔
طب یونانی کے معالج، محققین اور جدید طب سے وابستہ پیشہ ور افراد کے درمیان باہمی تعاون کی کوششیں قدیم حکمت اور عصری سائنسی تفہیم کے درمیان حائل فرق کو ختم کرسکتی ہیں۔ شواہد پر مبنی یہ نقطہ نظر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہوگا کہ یونانی طب کو وسیع طبی برادری میں پہچان اور قبولیت حاصل ہوجائے۔یونانی طب کو بین الاقوامی معیار تک پہنچانے کے لیے مضبوط تحقیق اور تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے تحقیقی اقدامات میں یونانی علاج کی افادیت اور اس کے محفوظ ہونے کے طریقہ کار پر توجہ دینی چاہیے۔ جس میں کلینیکل ٹرائلز کا انعقاد، کیس اسٹڈیز کو دستاویزی شکل دینا اور جدید طبی اداروں کے ساتھ باہمی تحقیقی منصوبوں میں اشتراک شامل ہے۔چونکہ یونانی طب کے علم کو محفوظ کرنے اور اسے پھیلانے میں تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، اس لیے تربیتی پروگراموں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے اس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہیے کہ معالج روایتی اصولوں اور جدید طبی ترقی دونوں کی گہری سمجھ سے لیس ہوجائیں،ایسا انضمام ایک زیادہ جامع صحتی نگہداشت کے نظام کو فروغ دینے کا سبب بن سکتاہے۔
صحت کے مرکزی نظام میں مؤثر انضمام کے لیے مریضوں کے لیے یونانی ادویات تک رسائی سب سے اہم نکتہ ہے۔ جس میں دواساز کمپنیوں کو اپنی ادویات کو اس طرح پیش کرنا چاہیے جو استعمال کرنے اور لے جانے میں آسان ہوں،ان کی پیکنگ اور شکل صارف دوست ہونی چاہیے، جس سے مریض اپنی سہولت کے مطابق انہیں خرید کر استعمال کرسکیں۔کوئی بھی طب اسی وقت مقبول ہوسکتی ہے جب وہ مریض کے جذبات اور اس کی سہولیات کو مقدم رکھے۔ایسی دوائیں بنائی جائیں جن کی دستیابی ممکن اور ان کا استعمال کرنا آسان ہو۔دواؤں کی بہتر پیش کش نہ صرف علاج کی پابندی کو بہتر بناتی ہے بلکہ یہ اقدام صحتی نگہداشت کے معمول کے طریقوں میں یونانی ادویات کو شامل کرنے میں بھی سہولت فراہم کرتے ہیں۔چونکہ دنیا صحت کے جدید چیلنجوں کے لیے متنوع اور موثر حل تلاش کر رہی ہے، مرکزی دھارے کی صحتی نگہداشت کے نظام میں یونانی ادویات کا انضمام ایک سنگ میل ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ یونانی ادویات، اپنے جامع اصولوں اور انفرادی نقطہ نظر کی وجہ سے صحت عامہ کے مسائل، نئی بیماریوں،NCDsکا بوجھ، ٹراپیکل بیماریوںاور بچوں کے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ شواہد پر مبنی علاج کو فروغ دینا، تحقیق اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا اور یونانی ادویات کو آسان بنانا اس قدیم شفا یابی کے طریقے کومقبول بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یونانی اور جدید طب سے منسلک معالج اور دواساز کمپنیوں کے درمیان تعاون صحت کی دیکھ بھال کے لیے ایک زیادہ جامع اور مربوط نقطہ نظر کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یونانی ادویات کو فروغ دینے کا لائحہ عمل اپنایا جائے اور صحت عامہ کے لیے اس کے فوائد کو بروئے کار لایا جائے۔
(مضمون نگار معالج اور آزاد کالم نویس ہے)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS