عمیر کوٹی ندوی
ملک کے بیشتر شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب، طبقہ اور خطہ سے تعلق رکھتے ہوں موجودہ صورت حال پر مطمئن نہیں ہیں۔ انہیں فکر مسائل، پریشانیوں اور روزبہ روز بگڑتی صورت حال کی ہے، یہ بات درست ہے۔ لیکن ان حالات سے زیادہ فکرمند ملک کے مسلمان ہیں اس لئے کہ ان سے سب سے زیادہ متاثر وہی ہیں۔انہیں فکرمند ہونا ہی چاہئے، اس لئے کہ انہیں چہار جانب سے گھیرنے کی پوری کوشش ہو رہی ہے۔ ان کی طرف ہاتھ ہر سمت سے بڑھ رہے ہیں اور ان پر حملے ہر جانب سے ہو رہے ہیں۔ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہا اور کوئی شعبہ نہیں بچا جسے اقتدار سے قریب لوگوں اور ان کے ساتھی براتی کی طرف سے متاثر کرنے، استعمال کرنے یا سیاست زدہ کرنے کی کوشش نہ کی جارہی ہو۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لئے اس دعوت کا تصور کریں جس میں بستی کے تمام لوگوں کو کھانے پر بلایا گیا ہے، دسترخوان بچھا ہے اور اس پر کھانا سجا ہوا ہے۔ دسترخوان کے چاروں طرف لوگ بھیڑ کی شکل میں جمع ہیں، بھوکے ہیں اور انہیں کھانے کے کم پڑنے یا ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اچانک لوگوں کی یہ بھیڑ چاروں طرف سے کھانے پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ نہ یہ پتا چلتا ہے کہ کون کہاں ہاتھ مار رہا ہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پر پڑنے والا ہاتھ کس کا ہے۔
اس صورت حال میں کھانے کا جو حشر ہوتا ہے کچھ ویسا ہی حشر اس وقت ہمارے ملک میں امت مسلمہ کا ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت لوگ امت مسلمہ پر ایسے ہی ٹوٹ پڑے ہیں جیسے کھانے والے دعوت میں پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ہر طرف سے ہاتھ بڑھ رہے ہیں، حملے ہو رہے ہیں، چوٹ پر چوٹ پڑ رہی ہے، سنبھلنا تو دور سہلانے کا بھی موقع امت کو نہیں مل رہا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔ اس کی وجہ اللہ کے رسولؐ نے یہ بتائی کہ مسلمانوں کے دلوں میں وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ کے یہ پوچھنے پر کہ وہن کیا ہے، رسول اللہ نے فرمایا کہ’’یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے‘‘( ابو داؤد: 4297)۔ حدیث شریف پر غور کریں اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر نظر ڈالیں، صاف پتا چلتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں موجود دنیا کی محبت اور موت کے ڈر نے اپنی انتہا کو چھو رکھا ہے۔ اسی سبب حالات اس قدر خراب اور سخت ہیں۔ دنیا کی محبت میں گرفتار مسلمان اس کی خاطر سب کچھ کرگزر رہے ہیں اور کسی بھی حد تک خود کو گرا رہے ہیں۔ اس وقت مسلمان دنیا کی خاطر عزت، آبرو، ملت، دین وایمان سب کا سودا کررہے ہیں۔ اپنی قیمت لگانے اور اپنی قیمت وصول کرنے والوں نے شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اب انہیں کہیں چھپنے کی ضرورت نہیں رہی، وہ پردے کے پیچھے سے نکل کر سامنے آگئے ہیں۔ اغیار کی ہدایات اور خواہشات کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
دنیا کو کسی صورت حاصل کرنے اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی چاہ میں مسلمان کی طرف سے جو کام کئے جارہے ہیں اور جو سیاہ کارنامے انجام دئے جارہے ہیں ان کی وجہ سے وہ موت کیا، اس کے تصور سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ یہ ڈر کرتوتوں سے انہیں باز نہیں رکھ رہا ہے، اس کی جگہ وہ انہیں بزدل بنا رہا ہے اور اس میں اضافہ پر اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ اس وقت مسلمان جن حالات اور مسائل سے دوچار ہیں اور جن پریشانیوں اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں وہ دنیا کی محبت اور موت کے ڈر کی وجہ سے ہی ہے۔ لوگ مسلمانوں کو بے وزن سمجھ کر ان پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ یہ موقع مسلمانوں کے لئے سوچنے کا ہے اور اس بات کو جاننے کی کوشش کرنے کا ہے کہ آ خر یہ نوبت آئی تو آئی کیوں۔ حالات کی سختی مسلمانوں کے درمیان کھرے کھوٹوں کو الگ کرنے کے علاوہ انہیں یہ بتانے کے لئے ہے کہ کہیں کچھ غلط ہورہا ہے اور بہت غلط ہو رہا ہے۔ یہ سختی مسلمانوں پر پہلی بار نہیں ہوئی ہے بلکہ جب جب مسلمان غلط روش پر چلے تب تب ہوئی ہے۔ اس وقت بھی معاملہ یہی ہے۔
بات امت پر لوگوں کے ٹوٹ پڑنے کا محض ذکر کرنے سے نہیں بنے گی، اس پر واویلا مچانے اور ماتم کرنے سے بھی نہیں بنے گی۔ اس کے لئے آپس میں ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے اور ایک دوسرے پر چیخنے چلانے سے بھی نہیں بنے گی۔ گالی گلوج کرنے اور باہم دست وگریباں ہونے سے بھی نہیں بنے گی۔ بات اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے بنے گی کہ اس صورت حال سے نکلا کیسے جائے؟۔ اس مرض ’’ دنیا کی محبت اور موت کے ڈر ‘‘ پر قابو کیسے پایا جائے؟۔ اس سوال کا جواب اور اس مسئلہ کا حل وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ حالات سے نکلنے کا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے‘‘ (الطلاق:2)۔ نہ دنیا کی محبت ہو، نہ موت کا ڈر ہو بلکہ ڈر صرف اور صرف اللہ کا ہو، اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزاری جائے اور اس کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیا جائے، جس چیز کو اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے وہ کیا جائے اور جس سے منع کیا ہے اس سے رک جایا جائے۔ جب اللہ کی رضا اور خوشنودی پیش نظر ہوگی تو پھر نہ کوئی لالچ ہو گی اور نہ کوئی ڈر ہوگا۔ نہ کوئی ایمان کا سودا کرسکے گا اور نہ کوئی ڈرا سکے گا۔ آگے بڑھنے کی راہ خود بہ خود نظرآجائے گی کیونکہ ’راہ تو اللہ ہی نکالتا ہے‘۔
بات امت پر لوگوں کے ٹوٹ پڑنے کا محض ذکر کرنے سے نہیں بنے گی، اس پر واویلا مچانے اور ماتم کرنے سے بھی نہیں بنے گی۔ اس کے لئے آپس میں ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے اور ایک دوسرے پر چیخنے چلانے سے بھی نہیں بنے گی۔ گالی گلوج کرنے اور باہم دست وگریباں ہونے سے بھی نہیں بنے گی۔ بات اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے بنے گی کہ اس صورت حال سے نکلا کیسے جائے؟۔ اس مرض ’’ دنیا کی محبت اور موت کے ڈر ‘‘ پر قابو کیسے پایا جائے؟
rvr
عمیر کوٹی ندوی: کھانے والے ٹوٹ پڑے ہیںپیالوں پر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS