ایم اے کنول جعفری : بابری کے بعد گیان واپی مسجد پر نگاہیں

0

ایم اے کنول جعفری
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ بابری مسجد کا فیصلہ اقلیتوں کے خلاف دئے جانے کے بعد جہاں مسلمان مایوس تھے،وہیں زعفرانی تنظیموں سے متعلق افراد کے چہروں پر فتح یابی کی چمک دُور سے دکھائی دے رہی تھی ۔بابری مسجد کے فیصلے نے اہل ہنود کو جو راہ دکھائی،وہ بہت دُور تک جانے والی ہے۔اجودھیا کے متنازع مقام پر شاندار رام مندر کی تعمیر کے درمیان بھگوا تنظیموں کی نگاہیں اَب کاشی کی تاریخی مسجد گیان واپی پرلگی ہیں۔اس سمت میں پانچ خواتین کو آگے بڑھایا گیا،جنھوں نے اگست 2021میں مسجد کی دیوار سے سٹے مقام پر ماںشرنگارگوری کے مستقل درشن اور پوجا ارچنا کا مطالبہ کرتے ہوئے ضلع جج کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ یہ حساس معاملہ بڑھ کر عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا۔ عدالت عظمیٰ نے 20مئی 2022کو بنارس کے ضلع جج کو ہدایت دی کہ وہ عرضی کی میرٹ پر فیصلہ لے۔ بنارس کے ضلع جج اجے کرشن وشویش نے 24اگست 2022کو سماعت پوری کی۔مسجد کمیٹی کی دلیل تھی کہ چوں کہ شرنگار گوری میں پوجا کرنے کی اجازت دینے کی عرضی پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے خلاف ہے،اس لیے یہ عرضی قابل سماعت نہیں ہے۔عدالت نے اسے قابل سماعت مانتے ہوئے12 ستمبر کواجے کرشنا وشویش کی عدالت نے مسلم فریق کے سول پروسیزر کوڈ کے رول۔7اور آرڈر۔ 11 کے تحت داخل کی گئی عرضی کو خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کی گیان واپی مسجد میں پوجا پاٹھ کی اجازت طلب کرنے کی عرضی کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ضلع جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عبادت گاہوں سے متعلق1991کا قانون و دیگر تجاویزات اس معاملے کی عدالت میں سماعت میں مانع نہیں ہیں۔مسلم فریق نے سول پروسیز کوڈ کے کردار و حکم کا حوالہ دیتے ہوئے مقدمے کے جواز کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں سماعت جاری رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے اگلی تاریخ 22ستمبر طے کی ہے۔یہ فیصلہ مسلم فریق کے خلاف ضرور گیا ہے،لیکن وہ اس سے مایوس نہیں ہیں۔اس بابت مسلم فریق انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کے وکیل معراج الدین صدیقی نے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی بات کہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS