خواجہ عبدالمنتقم
نیوز چینلوں پراشتعال انگیزی اور نفرت کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے روبرو زیر سماعت ایک معاملے میں ٹی وی چینلوں کی سرزنش کرتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ بات کہی ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ چینلوں پر بحث کے دوران نفرت اور اشتعال انگیزی پر قابو رکھیں اورارباب حکومت بھی ایسی صورت حال میں خاموش تماشائی نہ بنے رہیں۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھی اشتعال انگیزی اس طرح کی جاتی ہے جیسے کہ کسی کو یکدم قتل کردیا جائے اور دوسرے یہ کہ اسے slow poisoning کے ذریعہ آہستہ آہستہ مارا جائے۔ساتھ ہی اس نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں بھی اس طرح کی صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
عدالتیں میڈیا کی آزادی کے بارے میں اس سے قبل بھی کتنے ہی معاملوں میں یہ بات کہہ چکی ہیں اور قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لکشمن ریکھا پار کی جائے۔ ہماری سپریم کورٹ منروا ملز لمیٹڈ بنام یونین آف انڈیا (اے آئی آر 1980ایس سی1789)والے معاملے میں واضح طور پر یہ بات کہہ چکی ہے کہ بے لگام آزادی صرف جنگل راج میں ہی دی جاسکتی ہے۔اس شاعرانہ تخیل کو ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کو بھی من مانے ڈھنگ سے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ قانونی بیداری کے اس دور میں اگر مجنوں زندہ ہوتا تو وہ بھی آگے قدم رکھنے سے پہلے یہ دیکھ لیتا کہ کہیں آگے ’خار مغیلاں‘ یعنی کیکر کا کانٹا،تو نہیں۔
ویسے تو کسی بھی شعبۂ حیات میں کسی کو بھی،جس میں ہم سب شامل ہیں، یعنی عوام، انتظامیہ،عدلیہ اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ تک کو بے لگام آزادی حاصل نہیں۔ سب کو آئین کی حدود میں رہ کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے خیالات کے اظہار اور سوچنے کی مکمل آزادی ہے مگر معقولیت اور شائستگی کا دامن چھوڑنے کی آزادی نہیں۔یہ مانا کہ کسی برائی پر شکنجہ کسنے کے لیے یا قدغن لگانے کے لیے قانون ضروری ہے لیکن اگر سوچ نہ بدلے تو قانون بھی اتنا موثر ثابت نہیں ہوتا۔کیا ممانعت جہیزقانون بننے سے جہیز کی لعنت ختم ہوگئی؟سماجی مسائل کے حل کے لیے صرف قانون ہی کافی نہیں بلکہ ہم سب کو اپنی سوچ بھی بدلنی ہوگی۔
جہاں تک ہماری ٹی وی چینلوں کی جانبداری یا غیر جانبداری کی بات ہے توکچھ چینلوں پر صرف ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جن کے اظہار کردہ خیالات سے صرف وہ نتیجہ نکلے جو وہ چاہتے ہیںاور ساتھ ہی کچھ ایسے افراد کو بھی شریک مذاکرہ کر لیاجاتا ہے جو ان کے من پسند مذاکرہ کار کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی دخل انداز ہوجائیں،اسے بات پوری نہ کرنے دیں او راس کی بات کو غلط ثابت کردیں۔ کبھی کبھی تو کسی مذاکرہ کار کو اس قدر ذلیل کیا جاتا ہے کہ ناظرین کی نظر میں اس کے وقار میں بے حد کمی آجاتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ بار بار ذلیل ہونے کے بعد بھی کچھ چینلوں کے پروگراموں میں پھر سے ذلیل ہونے کے لیے کیوں آجاتے ہیں جبکہ ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔مذہبی امور پر بحث کے دوران بھی کچھ ایسے لوگوں کو بلا لیا جاتا ہے جو ان کے من کی بات کہیں خواہ ان کی باتوں سے کسی مخصوص طبقہ کے جذبات ہی کیوں نہ مجروح ہوتے ہوں۔کبھی کبھی تو ایسے لوگوں کا تعارف اسلامی اسکالرز کے طور پر کرا دیا جاتا ہے جنہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ تک نہ پڑھا ہو یا احادیث، فقہ، اصول فقہ وغیرہ کے معاملے میں نابلد ہوںاور فلسفہ کی معیاری کتب کا نام تک نہ سنا ہو۔
ہم اپنے مضمون کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہتے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ مذہبی امور سے متعلق بحث میں بیرون ملک سے صرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ان کے مذہب کو برا بھلا کہنے کے لیے ایک ا یسے ’نام نہاد صاحب فکر‘ کو بلا لیا جاتا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے اسلامی نام تک بدلنے کا مشورہ دے دیتے ہیں مگراپنا اسلامی نام انہوں نے ابھی تک نہیں بدلا۔انہیں اس بات کی مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں نام رکھیں اور میر کے ایک شعر کے اس مصرعۂ ثانی کو عملی جامہ پہنائیں ’قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا ‘مگر دوسروں کو بے طلب نصیحت چہ معنی دارد۔
اگر ایک جانب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم میڈیا کا احترام کریں تو دوسری جانب میڈیا سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی یرقانی صحافت (yellow journalism)کی راہ اختیارنہ کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کوہمارے سامنے ضرورلائے مگر اس طرح کہ مختلف فرقوں وگروپوں کے بیچ کوئی من مٹاؤ نہ پیدا ہو اور بین الاقوامی پیمانے پر بھی مختلف قوموں کے بیچ نئے اختلافات نہ پیدا ہوں یا موجودہ اختلافات کو دور کرنے میں مزید رکاوٹیں نہ پیدا ہوں۔ میڈیا نے سیاست دانوں اور ارباب حکومت سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق کتنے ہی اسکینڈلوں کا پردہ فاش کیا ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے کبھی کبھی ایک فریق کے عیبوں کو چھپایا ہے تو دوسرے فریق کی معمولی لغزش کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔
میڈیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا پردہ فاش کرتے وقت ان پر بھی اقتدار قانون کے اصول کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر۔ آئین کی دفعہ 19(1)(الف)میں ہم سب کو بشمول میڈیا اظہارخیال کی آزادی حاصل ہے مگر اسی دفعہ کے فقرہ(2) کے تحت اس قسم کی آزادی پر دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ امن عامہ، شائستگی یا اخلاق عامہ کی اغراض کے لیے معقول پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کتنے ہی معاملات میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ کو آزادی کا بے جا استعمال کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
میڈیا کو کسی بھی ملزم یا انتظامیہ کی بابت کوئی بھی رپورٹ تیار اور مشتہر کرتے وقت یا اس پر کسی بحث کے دوران اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ کسی بھی ملزم کو تب تک بے گناہ سمجھا جائے گا جب تک وہ مجرم ثابت نہیں ہوجاتا۔ میڈیا کا قبل از وقت کسی ملزم کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کرنا جیسے کہ وہ مجرم ثابت ہوچکا ہے ایک ناروا اور نامناسب رویہ ہے اور میڈیا کے لوگ خود بھی اس بات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں کہ اس قسم کی رپورٹنگ سے گریز کریں، مگر کبھی کبھی غیرارادی لغزش تو ہوہی جاتی ہے جس کا احساس میڈیا کو بعد میں خود بھی ہوجاتا ہے اور وہ ضمنی کارروائی کے طور پر مزید حقائق کو عوام کے سامنے لاتے ہیں تاکہ وہ لغزش جو ان سے ہوئی ہے، اس سے رائے عامہ پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
اقوام متحدہ کے 2ہزار سالہ اعلامیے میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ مملکتیں ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ آزادی دیں تاکہ وہ اپنا بنیادی کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکیں اور عوام کی بھی میڈیا تک رسائی ہوسکے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]