صحت خدمات میں نقب زنی

0

محمد حنیف خان

انسان کی بنیاد ی ضروریات میں صحت خدمات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ملک کے بنیادی ڈھانچے میں بھی صحت خدمات کو اہم تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا ہے جب تک اس کے بنیادی ڈھانچے میں صحت خدمات کو اولیت نہ حاصل ہو۔ جب بھی ملک کی ترقی جاننے کے لئے کوئی رپورٹ تیار کی جاتی ہے تو اس میں صحت خدمات کو ضرور شامل کیا ہے جس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہی ہوتی ہے کہ اچھی صحت پر نہ صرف خوشحال زندگی کا دارومدار ہے بلکہ ملک کی ترقی بھی اس سے وابستہ ہے۔ہندوستان نے جس طرح ہر شعبے میں ترقیات کی منازل طے کی ہیں اس نے صحت کے شعبے میں بھی حیرت انگیز ترقیاں حاصل کی ہیں ،اعداد وشمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں خون کی جگہ ’موسمی کا جوس ‘ مریض کو چڑھا دیا جاتا ہوکیا اس کو صحت خدمات میں ترقی مان لیا جائے یا پھر نظام کی خرابی کہا جائے۔حال ہی میں الٰہ آباد میں ایک پرائیوٹ اسپتال میں ایک مریض کو خون کی جگہ موسمی کا جوس چڑھا دیا گیا جس سے اس کی موت ہوگئی۔کہنے کو یہ صرف ایک واقعہ ہے لیکن اگر اس واقعے کے پس پشت دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا صحت ڈھانچہ تباہ کردیا گیا ہے ۔خدمت کی جگہ مادیت نے لے لی ہے جس میں جانوں کا اتلاف کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا نظام تیار کیسے ہوگیا جس میں ایک مریض کو خون کی جگہ موسمی کا جوس بغیر کسی خوف کے چڑھا دیا جاتا ہے۔
عالمی یوم صحت 2022کی تھیم ’ہمارا کرہ ہماری صحت‘ رکھی گئی ہے۔اس برس کی تھیم کا مقصد ہے کہ اس کرہ ارض پر رہنے والے ہر شخص کی صحت پر توجہ دی جائے ۔دوسری جانب ہندوستان نے ’ایک غیر جانب دار صحت مند دنیا کی تعمیر ‘کا نعرہ دیا تھا مگر یہاں اس کے بر خلاف ہو رہا ہے۔یہاں سب سے زیادہ صحت کے معاملے میں ہی لاپروائی برتی جا رہی ہے۔حالانکہ اگر صحت خدمات کے معاملے میں اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یقینا حیرت انگیز طور پر ہندوستان نے کامیابی حاصل کی ہے۔آزادی کے وقت جہاں ہندوستان میں محض 28میڈیکل کالج تھے، آج 595ایلو پیتھی اور 733آیوش میڈیکل کالج ہیں۔سرکاری اسپتالوں کی تعداد محض 7ہزار تھی آج 27398ہیں۔اس وقت پرائیوٹ اسپتال صرف 10ہزار تھے لیکن آج 70ہزارہیں۔سی ایچ سی اور پی ایچ سی کی تعداد آزادی کے وقت 725تھی اور 2022میں 1.50لاکھ ہے۔اسی طرح ڈاکٹروں کی تعداد اس وقت محض 50ہزار تھی لیکن 2022میں ایلو پیتھی کے 12.67لاکھ اور آیوش کے 5.56لاکھ ڈاکٹر ہیں۔متعدد بیماریوں کا ہندوستان نے مقابلہ کیا اور ان کو ملک سے ختم کیا جن میں ملیریا،چیچک اور پولیو جیسے امراض شامل ہیں۔
صحت خدمات میں ترقی کی وجہ سے ہی عرب دنیا کے لوگ ہندوستان میں علاج و معالجہ کو اہمیت دیتے ہیں ،جس کی ایک وجہ یہ ہے بھی ہے کہ یوروپی ممالک کے مقابلے ہندوستان میںسستا علاج و معالجہ انہیں مل جاتا ہے۔صحت خدمات کے باب میں اس قدر ترقی کے باوجود آج ہندوستان بیمار کیوں ہے؟اس کواچھی صحت خدمات کیوں نہیں مل رہی ہیں؟اس سوال کا جواب صحت خدمات کی ترقیات کے اعداد وشمار اور اس کی چکا چوند میں نہیں مل سکتا ہے بلکہ اس شعبے کے متعلقات میں نہاں ہے۔ملک میں ڈاکٹر اور اسپتالوں کے علاوہ دواسازی اور پیتھالوجی میں جو نقب زنی کی گئی ہے اس نے عوام کو بہتر خدمات سے محروم کردیا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ پرائیوٹائزیشن ہے۔جس طرح سے ہر شعبے میں نجکاری کو اہمیت دی گئی تاکہ بہتر خدمات مہیا کرائی جاسکیں اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی اس کو راہ دی گئی لیکن یہ عوام کے لئے ’وردان ‘ کے بجائے ان کے لئے شراپ بن گیا ہے۔
پرائیوٹائزیشن نے امیروں کے لئے تو راہیں کھول دی ہیں لیکن غریبوں کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔سرکاری اسپتالوں میں معیاری خدمات کے فقدان کی بنا پر مریض پرائیوٹ اسپتال پہنچتا ہے جہاں اس کو بہتر علاج و معالجہ تو مل جاتا ہے لیکن وہ علاج ہر شخص کے بس کا نہیں ہوتا ہے۔سرکاری اور پرائیوٹ دونوں طرح کے اسپتالوں میں پیتھالوجی کے نام پر جو کھیل ہورہا ہے اس سے نہ عوام ناواقف ہیں اور نہ ہی حکومت نابلد ہے۔یہاں مریض سے جانچ کے نام پر اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔پرائیوٹ پیتھالوجی کے ہرکارے یہاں موجود ہوتے ہیں جن کی ساز باز ڈاکٹروں سے ہوتی ہے ۔ہر جانچ ہر فیصد مقرر ہے جو ایمانداری کے ساتھ ان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔جن جانچوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ڈاکٹر وہ بھی لکھتا ہے ۔مریض کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس کی کون کون سی جانچیں اور کیوں کرائی جا رہی ہیں۔یہی جانچ اگر سرکاری اسپتال میں ہوتی ہے تواس کی حد درجہ کم قیمت ہوتی ہے لیکن جب یہ باہر پیتھالوجی میں کرائی جاتی ہے تو مریضوں کو ایک بڑی قیمت چکانی ہوتی ہے۔پیتھالوجی کے کھیل نے مریضوں کو ہلکان کر رکھا ہے۔ در اصل یہ سرکاری بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔اگر حکومت صحت کو اہمیت دے کر عوام کی ضروریات کے مطابق بنیادی ڈھانچہ تیار کرتی اور ان کو سرکاری اسپتالوں میں ہر طرح کی سہولیات مہیا کراتی تو اتنا برا حال نہیں ہوتالیکن چونکہ سرکار بھی اخراجات سے بچنا چاہتی ہے اس لئے سرکاری اسپتالوں میں بہتر علاج و معالجہ کے انتظام کا ضرورت کے مطابق انتظام آج بھی نہیں ہوسکا ہے۔سرکاری اسپتالوں کی جو بری حالت ہے اس کا اندازہ کوئی بھی شخص صرف وہاں جاکر ہی کر سکتا ہے کہ مریضوں کو بیڈ نہیں مل رہی ہے ۔ایک ایک بستر پر دو مریض ہوتے ہیں اور جانچ کی رپورٹ اس وقت آتی ہے جب مریض اس دنیا سے جا چکا ہوتا ہے۔جب سرکاری اسپتالوں کی یہ حالت ہوگی تو مریضوںکی جان بچانے کے لئے پرائیوٹ اسپتالوں کی جانب جانا فطری امر ہے،لیکن یہاں مادیت کے پجاری بیٹھے ہوتے ہیںجن کی نظر میں صحت کے بجائے پیسہ ہوتا ہے۔یہی حالت دوا سازی کی ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کو حکومت نے لوٹ کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔جو دوا محض 10 روپے کی ہوتی ہے اس پر بھی 120روپے درج ہوتے ہیں اور مریضوں سے یہ وصول بھی کئے جاتے ہیں۔ایسا نہیں ہے حکومت کو معلوم نہیں ہے، اس کو سب معلوم ہے لیکن مسئلہ اہمیت اور فائدے کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت بہتر صحت مہیا نہیں کرانا چاہتی ہے۔ پرائیوٹ اسپتالوں کی منظوری کے پس پشت مقصد یہی تھا لیکن ان اسپتالوں کے قیام کے ساتھ ہی چور دروازے سے جب اعلیٰ افسران کو موٹی آمدنی ملنے لگی تو انہوں نے ہر طرح کے فرائض اور ذمہ داریوں سے منھ موڑ لیا اور ان اسپتالوں کو لوٹ کھسوٹ کی پوری اجازت دے دی۔اگر حکومت عزم کے ساتھ قدم آگے بڑھائے تو میڈیکل کے شعبے میں ہر طرح کی لوٹ پر وہ قدغن لگا سکتی ہے ۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت اتر پردیش نے الہ آباد کے لاپروا اسپتال کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بلڈنگ کو خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے لیکن صرف ایک اسپتال کو نوٹس دے دینے سے بھلا ہونے والا نہیں ہے۔اگر عوام کو صحت خدمات کے نام پر لوٹ سے بچانا ہے اور ان کی زندگیوں کو خوشحال کرنا ہے تو حکومت کو پرائیوٹ اسپتالوں پر انحصار کرنے کے بجائے صحت خدمات کا ڈھانچہ اس وسیع پیمانے پر کھڑا کرنا ہوگا جس میں عوام کی ضرورت پوری ہو سکے۔حکومت کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے بس اگر ضرورت ہے تو قوت ارادی کی ۔عالمی سطح پر صحت خدمات کی اہمیت مسلم ہے اور اس کو بنیادی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے ۔جب تک عوام صحت مند اور خوشحال نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک تیزی سے ترقی نہیں کرسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS