گورنراور بنگال حکومت کی رسہ کشی

0

ہندوستانی آئین کی رو سے کسی ریاست کے گورنر کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو ملکی سطح پر صدر جمہوریہ کوحاصل ہوتے ہیں۔ آئینی عہدہ کے اعتبار سے ریاستوں کے گورنر بلاشبہ اپنی اپنی ریاستوں کے سربراہ ہوتے ہیں لیکن حکومت کی باگ ڈور وزیراعلیٰ کے پاس ہوتی ہے جو اپنی کابینہ کی مشاورت سے انتظامی معاملات چلاتا ہے اور اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کا نظم و نسق سنبھالتا ہے۔اس آئینی تقسیم کی لکیر کو پار کرکے اگر گورنر، وزیراعلیٰ کے کام کاج میں مداخلت شروع کردیں اور ریاست کے نظم و نسق پر بے جا تنقید اور تنقیص کرنے لگیں تو ٹکرائو اور تصادم شروع ہوجاتا ہے۔جو ان د نوں بنگا ل میں اکثر دیکھاجارہاہے۔ گورنرجگدیپ دھن کھڑ اپنے مفوضہ اختیارات سے اوپر اٹھ کر جارحانہ سیاسی کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ ریاست کے انتظامی معاملات میں ان کی مداخلت نہ صرف بڑھ گئی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے آئینی سربراہ نہیں حزب اختلاف کے قائد ہیں اور حکومتی کام کاج میں کیڑے نکالنا ہی ان کا ’فرض‘ ہے۔ بھاری بھرکم اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کی تقریب حلف برداری کے دوران بھری بزم میں وزیراعلیٰ کو نظم و نسق بہتر بنانے کی نصیحت کرنا یا حکومت کے منع کرنے کے باوجود مبینہ تشدد زد ہ علاقوںکا دورہ کرکے عوامی سطح پر حکومت کی تنقیص کرنا اور ناردا معاملے میں ترنمول لیڈروں کی گرفتاری پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا اور یہ تک کہہ دینا کہ بنگال جل رہاہے اور پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے، ایسے جارحانہ کردار ہیں جس کی توقع گورنر کے باوقار عہدہ پر متمکن کسی شخص سے نہیں کی جاسکتی ہے۔گورنر کی یہ سرگرمی کسی بھی حکومت کیلئے نارواہوگی۔ ممتابنرجی کی حکومت کو بھی گورنر کی یہ سیاسی سرگرمیاں شاق گزررہی ہیں اور وہ الزام لگارہی ہے کہ گورنر مرکز کے اشارہ پر وفاقی ڈھانچہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی حدیں توڑ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ریاست میں صدر راج نافذ ہوجائے۔ تقریب حلف برداری میں گورنر کی نصیحت کا ممتابنرجی نے یہ کہتے ہوئے کرارا جواب دے دیاتھا کہ تین مہینوںتک ریاست میں نظم و نسق کی کمان الیکشن کمیشن کے پاس تھی، اب نئی حکومت تشدد کے واقعات پر لگام لگائے گی۔لیکن اس کے بعد سے گورنر سیاسی لیڈر کی طرح مختلف اضلاع کا دورہ کرنے لگے اور عوامی پلیٹ فارم پر آکر حکومت کو ناکام تک ٹھہرادیا اور کہا کہ بنگال میں آئین کو نظر انداز کیاجارہاہے۔ اس بابت گورنرجگدیپ دھن کھڑ نے یکے بعد دیگرے کئی ٹوئٹ بھی کردیے۔گورنر کی یہ ’ جارحیت‘ کسی بھی حکومت کیلئے پسندیدہ نہیں ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مداخلت بے جا کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے ممتابنرجی نے انہیں مغربی بنگال سے ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے اوراس کیلئے صدر اور وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔ اپنے خط میں وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے الزا م لگایا ہے کہ گورنر دھن کھڑ انتخاب کے بعد سے مغربی بنگال میںتشدد کا مسئلہ اٹھارہے ہیں۔ ساتھ ہی خط میںگورنر دھن کھڑ پر حلف برداری کی تقریب کے دوران لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ اٹھانے اور پبلک ڈومین میں اس کے بارے میں ٹوئٹ کرکے سبھی حدیں پھلانگنے، ریاستی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کا بھی الزام لگایاگیا ہے۔صدر جمہوریہ اور وزیراعظم،ممتابنرجی کے اس مطالبہ کو کتنی سنجیدگی سے لیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ترنمول حکومت گورنر جگدیپ دھن کھڑ کی ’سیاسی‘ سرگرمیوں سے نالاں ہوچکی ہے اور یہ بھی کہاجارہاہے کہ اسمبلی کے اگلے اجلاس میں گورنر کو ہٹانے کے سلسلے میں حکومت قرارداد بھی لاسکتی ہے۔حالانکہ راج بھون کے ذرائع نے ترنمول کانگریس کے الزامات کو مستر د کرتے ہوئے کہا کہ گورنر ایک وکیل رہ چکے ہیں اور وہ گورنر کے عہدہ کی ذمہ داریوں اور اختیارات سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ ناردااسٹنگ آپریشن کے معاملے میں قانون کے تحت ہی گورنر نے ملزمین کی گرفتاری کی ہدایت دی ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ دلیل درست ہو لیکن بادی النظر ناردا معاملہ میں بنگال کے وزرا اور ترنمول ارکان اسمبلی کی گرفتاری کی اجازت کے پس پشت سیاسی انتقام کے جذبہ کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ جہاں تک ریاست میں صدر راج لگائے جانے کا معاملہ ہے تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بھاری بھرکم اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والی کسی حکومت کو ہٹاکر ریاست میں صد ر راج کا نافذ کیا جاناممکن نہیں۔ان حالات میں ممتابنرجی نے گورنر کے ہٹانے کا جو مطالبہ کیا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔
کووڈ 19-اور کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کے دور میں ضرورت ہے کہ حکومت ہر طرح کی مداخلت سے پاک اپنی تمام کوششوں کا رخ ایک ہی جانب رکھے اور اس وبا کی لڑائی میں فتح کا جھنڈا گاڑے لیکن اگر ریاستی حکومت کو پریشان کرنے اوراسے سیاسی طور پر غیرمستحکم کرنے کی ایسی ہی کوشش کی جاتی رہی تو یہ کورونا سے لڑائی پر بھی اثر انداز ہوگا اوراس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں سیاسی اتھل پتھل کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ گورنر ممتابنرجی کو ملے ہوئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں اوربے جا تنقید تنقیص سے بازآکر حکومت کو اس کا کام کرنے دیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS