مغربی ایشیا میں کئی ممالک آج بھی خانہ جنگی کا شکار بنے چلے آرہے ہیں۔ پورا علاقہ تنازعات، معرکوں، فوجی کارروائیوں اورخانہ جنگی کاشکار ہیں۔ عراق، شام، ایران ان تمام ممالک اور خطوں میں سب سے منفرد صورت حال کردوں کی جو اس علاقے میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں مگر کوئی ان کا اختیارات والا خطہ کوئی مکمل خود مختار خطہ یا ملک نہیں ہے۔
پچھلے دنوں یوروپ کے اہم مسلم ناٹو ملک ترقی میں دہشت گردانہ واقعات ہوئے۔ ترکی جس میں بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی تعداد میں کرد رہتے ہیں اور یہ لوگ اس منفرد تہذیب، زبان اور ثقافت کی وجہ سے خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ترکی ایک طویل عرصہ سے کرد علیحدگی پسندی کی پرتشدد تحریک کا سامنا کررہاہے اور مختلف مواقع پر کرد دہشت گرد اپنی کارروائیاںانجام دے کر اپنی موجودگی درج کراتی رہتی ہیں۔ چند روزپہلے، بم دھماکے میں ہلاکتوںکے بعد ترکی فوج نے ملک بھر میں کردوں کی پکڑدھکڑ شروع کردی اور کرد کو سبق سکھانے کے لیے شام کے کرداکثریتی علاقوں پرفوجی مدد فراہم کرکے ایک خود مختار علاقہ بنادیاتھاحالانکہ امریکہ پرمسلسل الزام لگتے رہے ہیں کہ امریکہ کرد اکثریتی شامی علاقوں سے بڑی مقدار میں پیٹرولیم مصنوعات اسمگل کررہاہے۔ بہرکیف، مغربی ایشیا کے اس خطے میں کردوں کی آبادی شمالی شام، عراق، مرکزی ایران میں ہے اور ترکی میں سب سے زیادہ کرد رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ترکی کی بیس فیصد آبادی کرد نسل کے عوام کی ہے۔ ترکی میں کرد ایک خودمختار علاقے کے لیے 1948سے جدوجہد کررہے ہیں۔ ترکی میں اس وقت خود مختار یا آزاد ملک بنانے کے لیے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ الگ ملک بنانے کی تحریک کردستان ورکرپارٹی (پی کے کے) کو ترکی نے کالعدم قرار دیا گیا۔ کرد اکثریتی علاقوں میں سرگرم پی کے کے اور مقامی حکومت کے درمیان مسلسل مسلح جدوجہد میں ہزاروں لوگ جان گنوا چکے ہیں۔ اور ترکی کی موجودہ حکومت علیحدگی پسندوں کے خلاف ہر سطح پر مہم چلارہی ہے اور برسرپیکار ہے۔
شام میں ایک بڑاعلاقہ کردوں کی اکثریت والا ہے۔ 2011میں نام نہاد عرب بہاریہ کے دور میں وہاں پربھی جمہوریت کے قیام کے لیے تحریک شروع ہوئی جو کہ بعد میں چل کر فرقہ وارانہ اور علاقائی کشمکش میں بدل گئی۔ آج شام سب سے زیادہ بھیانک خانہ جنگی اور غیرملکی مداخلت کا شکاربناہوا ہے۔ امریکہ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں فوجی مداخلت کی اور آج اسرائیل سمیت کئی بڑی طاقتوں کی مداخلت اور داخلی خلفشار کی وجہ سے یہ ملک بربادہوگیا ہے۔ ترکی اورعراق کے بارڈر پرپورا علاقہ کرد اکثریتی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی شام میں کویانی اور نارتھ ایسٹ میں جزیرہ علاقوں میں کردوں کی بڑی آبادی رہتی ہے۔ اس علاقہ کو اب کردستان کہاجاتاہے اور سرکاری طور پر باضابطہ اس کا نام Kurdish Regions of Syriaکیا ہے۔ اس پورے خطے کو امریکہ کا تحفظ اورسرپرستی حاصل ہے۔ امریکہ اور شام کی بشار الاسد کی حکومت کے درمیان چھتیس کا آنکڑا ہے اور ترکی کو یہ لگتا ہے کہ پڑوسی ملک میں ایک آزاد علاقہ کرد خط وجود میں آنے کے بعد اس کی جغرافیائی یکجہتی کو خطرہ ہے۔ لہٰذا اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے نام پر ترکی شام کے ان علاقوں پر بڑے پیمانے پر کارروائی کررہاہے جہاں کردوں کا غلبہ ہے۔
پچھلے دنوں ایران میں ایک کرد خاتون کے قتل کے بعد پھوٹے پرتشدد مظاہروں کی خبریںپوری دنیا میں سنی اور دیکھی جارہی ہیں۔پوری دنیا میں اس پرواویلا ہے۔ ایران کاشبہ ہے کہ مغربی طاقتیں، امریکہ اور خطے کے دیگر ملک کردوں کو آگے کرکے ایران میں مقتدر طبقہ کے خلاف بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایران کے شمالی مغربی علاقے میں کردوں کی بڑی آبادی رہتی ہے کیونکہ مرنے والی خاتون امینی بھی کرد تھی لہٰذا کرد غلبہ والے علاقوں میں احتجاج زیادہ شدیدہیں۔ یہ علاقہ عراق سے لگاہوا ہے لہٰذا ایران کی وزارت دفاع اور داخلہ اس علاقے میں مظاہروں کے خلاف شدت کے ساتھ کارروائی کررہی ہے۔ ایران بھی عراق کے ان علاقوں میں فوجی کارروائیاں کررہا ہے جہاں کردوں کا غلبہ ہے۔ ایران میں کردوں کی سرگرم شخصیات عراق میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایران ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرکے اپنے یہاں مظاہروں پر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہاہے۔
عام شکایت ہے کہ عراق میں صدام حسین کے اقتدار میں داخلی بے چینی کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا ہے۔ عراق میں امریکہ کی قیادت والی فوج نے کاررووائی کرکے صدام حسین کو بے دخل کردیاتھا۔ اس کے بعد کردوں نے شمالی عراق میں اپنے اقتدار والاعلاقہ بنالیاتھا ،جس کے وجود کو بعد میں 2005کے آئین کے تحت باقاعدہ تسلیم کرلیاگیا۔
ترکی، ایران، شام اور عراق میں رہنے والے کرد آج تمام ریاستوں کے باشندے میں ملک ان کا کوئی اپنا ملک نہیں ہے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ مغربی ممالک کردوں کی جس خودمختار ریاست یا ملک کا باشندہ بتارہے ہیں،وہ ایران عراق شام اور ترکی کے ان تمام ملکوں پر مشتمل ہے جو کردوں کی اکثریت والے ہیں۔ اس طرح سے مغربی ممالک اسے چاروں دشمن ملکوں کو جغرافیائی طورپر توڑنے، ایک مغربی ایشیا کا نیا نقشہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ مغربی ممالک کو اپنا طرز زندگی برقرار رکھنے اور سہولیات کے لیے پیٹرولیم اورتوانائی کے وسائل کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے جو اس تقسیم کرکے اور ’کرد‘ ملک یا کردستان بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔اب دیکھا یہ ہے کہ اس کشمکش میں کون کامیاب ہوتا ہے ، مغرب یا یہ چار ممالک!n
کردوں کے بہانے مغربی ایشیا کا نقشہ بدلنے کی کوشش؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS