شاہنواز احمد صدیقی: فرانس:نیا جال لایا پرانا شکاری

0

شاہنوازاحمدصدیقی

عالمی سیاست ایک اور تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ شاید مغربی ممالک نے سمجھ لیا ہے کہ اب تیسری دنیاکے ممالک کی آنکھوں پرپڑا پردہ اٹھنے لگا ہے، یہ ممالک بطور خاص افریقی ممالک کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کی غربت، بے بسی، فاقہ کشی اور خانہ جنگی اور مختلف ملکوں میں آپسی رقابت کا فائدہ اٹھایا جارہاہے اور سامراج وادی کے خاتمہ کے بعد بھی غریب ممالک کے استحصال کی کئی نئی شکلیں پیداکی گئی ہیں۔ کئی ملک فرانس سے بطور خاص ہوشیار ہوگئے ہیں اور ابی محمد اپنے ملکوں میں اس کی فوج کی بالادستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حالات کی سنگینی کوبھانپ کر فرانس کے فوجی ہتھکنڈوں کو پس پشت ڈال کر اب سفارتی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ فرانس، امریکہ اور برطانیہ کافوکس اب بطورخاص مسلم ممالک ہیں۔ فرانس نے تیونس کی راجدھانی میںآرگنائزیشن انٹرنیشنل ڈی لاء فرانسسکوفونی(آئی اوایف) (Organization Internationale de La Francophonie)(آئی اوایف) اجلاس طلب کیا۔
فرانسیسی زبان اور ثقافت سے متاثرممالک جن کی تعداد تقریباً88ہے، کی ایک علیحدہ تنظیم ہے کی حال ہی میں سربراہ کانفرنس تیونس کے جزیرے جریہ میں ہوئی۔ اس کانفرنس کو یوکرین پر روس کے حملہ کے تناظر میں دیکھا جارہاہے۔ دراصل مغربی ممالک کے روس کے اثرات کو کم کرنے اور براعظم افریقہ سمیت دیگر ایشیائی اور یوروپی ملکوں میں اثرات کو بڑھانے کی کوشش کے طورپر دیکھا جارہاہے۔ خیال رہے کہ اس حملہ کے بعد تمام مغربی یا دیگر خطوں کے ممالک میں روس کو الگ تھلگ کرکے اس کے اقتصادی تجارتی اورسیاسی اثرات کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پچھلے دنوں ترکی نے ترکی زبان بولنے والے ممالک کو یکساں لسانی اور ثقافتی اقدار کی بنیاد پر یوروپ اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کی تنظیم کی سربراہ کانفرنس کی تھی۔ حالانکہ یہ تنظیم آگنائزیشن آف ترک اسٹیٹس (اوٹی ایس) صرف پانچ ممالک (1)آذر بائیجان، (2)قزاقستان، (3)کرغستان، (4)ترکی اور(5)ازبیکستان پرمشتمل ہے مگر یورپ کے دو ممالک ہنگری، ناردن سائپرس اور ترکمانستان کو آبزرور کا رتبہ حاصل ہے) منعقد کی گئی۔اوٹی ایس اگرچہ چھوٹی تنظیم ہے مگر یوروپ کے یوکرین جنگ سے متاثر علاقوں میں ان ممالک کی کافی اہمیت ہے۔ ترکی کا حجم، معیشت، عسکری قوت اور خطے اور خطے کے باہراسلامی دنیا میں اثر ورسوخ کی وجہ سے اس 8رکنی تنظیم کے سیاسی اور اقتصادی اثر دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں۔
بہرحال فرانس ایک بڑی نیوکلیئر طاقت اور بڑی معیشت والا ملک ہے، جس کے افریقہ کے بڑے حصہ پر قبضہ رہا، کامن ویلتھ ملکوں کی طرح فرانس چاہتاہے کہ اپنے آپ کو اپنے پرانے سامراجی علاقوں اور ملکوں کے سامنے ایک سافٹ طاقت بنا کر پیش کرے اور اس بہانے ان ممالک سے راہ و رسم کو فروغ دے جو کسی زمانے میں اس کی کالونی رہے ہیں اور ان میں اثرات کی وجہ سے فرانس کی زبان فرانسیسی اور کلچر کی چھاپ گہری ہے۔ فرانس کے اکثر ممالک میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے، جس ممالک نے جدوجہد کرکے فرانس کے طوق سے آزادی حاصل کرلی اور ان ممالک کی تاریخ فرانسیسی فورسیز کے مظالم سے بھری پڑی ہے اور ابھی تک ان ممالک کے فرانس کے دیے گئے زخم بھرنے نہیں پائے ہیں۔ فرانس اگرچہ ان تلخ یادوں کو اہل افریقہ کی یادداشت سے محو کرنا چاہتاہے مگر وہ افریقی ملکوں پر اپنا اثر ورسوخ ختم نہ کرنے یاان کے حکمرانوں پرہاتھ رکھے ہوئے ہے اور علاقائی سطح پر کچھ ممالک کی چھوٹی تنظیمیں بنا کر مالے ،برنیکافاسو، ایتھوپیا جیسے ممالک کو اپنے شکنجہ سے بالکل آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس ضمن میں اقتصادی مفادات کو فروغ دینے اور باہمی امداد کے نام پر Economic Community of of West African States (ECOWAS)ایک مخصوص موقف اور پالیسی سے انحراف کرنے والے ممالک پردباؤ ڈال کر بعض اوقات بڑی طاقتوں کے ساتھ چلنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس تنظیم میں مغربی افریقہ کے تقریباً تمام ممالک پراپنی اقتصادی تجارتی بالادستی کے ذریعہ سیاسی اقتدار پرکنٹرول کیا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں مالے سے غیرملکی افواج کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے اس کے خلاف سخت پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مالے وگردونواح کے علاقوں میں دہشت گردی اور فوجی حکمرانوں کی من مانی کے خلاف ’کارروائی‘ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کئی ممالک کی مسلح افواج تعینات کی گئی تھیں۔حال میں ہی غیرملکی افواج کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا، فرانس تقریباً پوری طرح وہاں سے اپنی افواج کو نکال چکا ہے۔ چند دنوں قبل برطانیہ اور ایک اورافریقی ملک ایوری کوسٹ اقوام متحدہ کے مشن ایم آئی این یو ایس ایم اے سے علیحدگی اختیار کرنے اور اپنی فوج کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور اب جرمنی نے بھی اپنی فوج کو بلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ممالک اس انخلا کی وجہ یہ بتاتے ہیں۔ مالے انتظامیہ نے 2024تک عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے اور اس اعلان کی روشنی میں جرمنی کی فوج 2024تک وہاں سے نکل جائے گی۔ دراصل مالے کے فوجی حکمراں مسلسل عام انتخابات کی تاریخیں بدلتے رہتے ہیں اور اب انہوں نے انتخابات کے انعقاد کے لیے مئی 2024کی مہلت دی ہے مگر اس انخلا کا سبب دوسرا بتایا جارہاہے۔ دراصل مالے میں مغربی ممالک کی مسلسل مداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوںنے افواج کے بجائے روس کی افواج، جنگی ماہرین اور بدنام زمانہ ویگنرگروپ کی خدمات حاصل کرنی شروع کردی ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک اور امریکہ وغیرہ ایسے گروپ کو بھاڑے کے ٹٹو میں شمار کرتے ہیں اور ان پر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ جرمنی کی افواج 2013سے مالے میں اپنے 1,406فوجیوں کے ذریعہ گراں قدرخدمات انجام دے رہی ہے مگراقوام متحدہ کی ٹوپی اوڑھے ہوئے یہ غیر ملکی فوجوں کے مالے کے فوجی حکمرانوں نے پر کتر دیے ہیں۔ ان فوجیوں کی پرواز کی اجازت ختم کردی گئی تھی۔ فرانس کی کالونی رہے مالے میں اندرونی خلفشار فوجی مداخلت، خانہ جنگی کو روکنے کی خاطر اقوام متحدہ نے اپنا مشن تعینات کیا تھا۔ فرانس نے یواین او کے اس مشن کے علاوہ اپنی افواج کو برخان مشن (Barkhane Mission)کے تحت تعینات کرکے اپنی فوجی طاقت وبالادستی کا ثبوت دیاتھا۔
یکم اگست 2014میں شروع ہونے والے اس فوجی ’مشن‘ میں 3000فوجی تھے۔ اس مشن کے ذریعہ فرانس پورے افریقی ساحل خطے پرنظر جمائے ہوئے تھا اور فوجی کارروائیاں انجام دے رہاتھا۔ اس نام نہاد مشن کا ہیڈکوارٹر چاڈ کی راجدھانی انجمیا) (N.D Jamenaمیں تھی۔ اس ’مشن‘ میں برکینافاسو، چاڈ، مالے اور موریٹینا شامل تھے، جن کو فرانس نے ایک اور سب گروپ جی 5ساحل (G-5 Sahel) کا نام دیا تھا۔ فرانس نے اس گروپ کو بنانے کے جومقاصد بیان کیے ہیں ان کے مطابق فرانس اور ان ملکوں کے درمیان اقتصادی خوش حالی اور سیکورٹی کے ایشوز پرفوکس کیاگیا ہے اور اس خطے میں دہشت گرد تنظیموں Al-Gaeda in the Islande Maghrebاے کیو آئی ایم ، ایم او جے ڈبلیو اے، المرابطون (ابوبکر مصری کی قیادت والا) اور نائیجیریا کے خونخوار دہشت پسند گروپ بوکوحرام وغیرہ کو نیست ونابود کرنا تھا۔
خیال رہے کہ اس گروپ اور فرانس کی فوج کو افریقی یونین اوراقوام متحدہ کی حمایت اورتائید حاصل تھی۔ جرمنی نے بھی اس مشن میں 900فوجیوں کا تعاون دیاتھا۔ اقوام متحدہ کی تائید کے علاوہ یوروپی یونین نے اس مشن میں 50ملین یورو کی اقتصادی مدد فراہم کی تھی۔
جرمنی فوج کو مالے کے سب سے خطرناک اور دہشت گردی سے بدترین متاثر گاو(Gao Region)میں نگرانی کے فرائض انجام دیے تھے۔ بعدازاں روس اور چین نے بھی اس مشن کو حمایت دی تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے تمام ویٹوپاور کے حامل ممالک نے اس فوجی مشن کے قیام پر اتفاق ظاہرکیاتھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ممالک اس گروپ میں شامل تھے، ان میں فوجی حکمرانوں کی تبدیلی ہوگئی ہے اور کئی مغربی افواج نے تعاون سے کنارہ کرلیا ہے۔ ان ممالک میں برکینافاسو ، مالے اور چاڈ قابل ذکر ہیں۔ برکینافاسو میں ابھی حال ہی میں 30ستمبر2022کو فوجی حکمراں اور صدر پال ہینری سنڈاؤگوڈمبیبا (Paul Henri Sandaogo Damiba)کو معزول کرکے جواں سال ابراہیم ٹراورے (Ibrahim Traore)نے قبضہ کرلیا تھا اور معزول صدر کو جان بچاکر فرانسیسی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی تھی۔ معزول صدر بھی فوجی حکمراں تھے اور فرانس کے منظور نظر تھے اور اب ایک سمجھوتے کے بعد زندگی بچا کر جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ابراہیم ٹراورے کی فوج تختہ پلٹ کے بعد فرانس نے سفارت خانے کا محاصرہ کرلیا تھا۔
مالے میں 28میں 2021کے بعد اسیمی گوئیٹا (Asimi Goita)قابض ہیں۔ انہوں نے منتخب صدر ابراہیم ابوبکر کتیاکو بے دخل کرکے مئی 2022میں اقتدار پرقبضہ کیاتھا۔ ابراہیم نے مالے کے فوجی افسر Bah N. Dahکو بے دخل کرکے اقتدار پرقبضہ جمایاتھا۔
بہرکیف فرانس نے اہل افریقہ کے بدلتے ہوئے تیور کو دیکھتے ہوئے ماہ رواں 8نومبربرخان مشن (Barkhan Mission)کوختم کرنے کااعلان کردیاہے۔
فرانس:بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں
آرگنائزیشن انٹرنیشنل ڈی لاء فرانسسکوفونی(آئی اوایف) (Organization Internationale de La Francophonie)یعنی فرانسیسی زبان ثقافت کے زیراثر ممالک کی کانفرنس افریقہ کے عرب مسلم ملک تیونس میں دودن تک چلی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر آگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری نے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’ہم فرانسیسی زبان اور تقاریب کے زیر اثر ممالک سے روشن مستقبل اورجدین ترین دو رکی طرف گامزن ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بدلتے حالات کے مطابق اہمیت اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔ تیونس میں ہونے والا یہ اجلاس اپنی نوعیت کا 18واں چوٹی اجلاس تھا، جو یوکرین بحران کے بعد منعقدہوا اور اس کی ضرورت اس بحران کے بعد محسوس ہوئی۔ اس کانفرنس میں جن سربراہان نے شرکت کی، ان میں فرانس کے صدر ایمنوئل میکروں، کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹریڈو اور مصر کے صدر سیسی شامل ہیں۔ یوروپین یونین کے صدر چارلس مائیکل اور افریقی یونین کے سربراہ بھی شریک ہوئے۔
میزبانی تیونس کے صدر قیس سعید نے ممبران ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کانفرنس کے سربراہان اور لیڈران کا خصوصی فوکس ’نوجوان نسل‘ اور ان کے مستقبل پرتھا۔ خیال رہے کہ اس وقت پوری دنیا میں 320ملین فرانسیسی زبان بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ممالک مثلاً سینگل، آئیوی کوسٹ گبن مورینٹیڈ، نائیجیر برونڈئی اور روانڈا کے صدور نے شرکت کی۔ مگر اس اتحاد کے مظاہرے کے باوجود اس کانفرنس پر آپسی اختلافات کا سایہ رہا، یہ تمام ملک اقتصادی، سماجی، سیاسی بدحالی اورخانہ جنگی کا شکار ہیں اور اس کے اثرات کانفرنس پردیکھے گئے۔ مگرفرانس کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھے۔n

 

بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں

عالمی آرگنائزیشن انٹرنیشنل ڈی لاء فرانسسکوفونی(آئی اوایف) (Organization Internationale de La Francophonie)یعنی فرانسیسی زبان ثقافت کے زیراثر ممالک کی کانفرنس افریقہ کے عرب مسلم ملک تیونس میں دودن تک چلی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر آگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری نے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’ہم فرانسیسی زبان اور تقاریب کے زیر اثر ممالک سے روشن مستقبل اورجدین ترین دو رکی طرف گامزن ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بدلتے حالات کے مطابق اہمیت اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔ تیونس میں ہونے والا یہ اجلاس اپنی نوعیت کا 18واں چوٹی اجلاس تھا، جو یوکرین بحران کے بعد منعقدہوا اور اس کی ضرورت اس بحران کے بعد محسوس ہوئی۔ اس کانفرنس میں جن سربراہان نے شرکت کی، ان میں فرانس کے صدر ایمنوئل میکروں، کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹریڈو اور مصر کے صدر سیسی شامل ہیں۔ یوروپین یونین کے صدر چارلس مائیکل اور افریقی یونین کے سربراہ بھی شریک ہوئے۔ میزبانی تیونس کے صدر قیس سعید نے ممبران ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کانفرنس کے سربراہان اور لیڈران کا خصوصی فوکس ’نوجوان نسل‘ اور ان کے مستقبل پرتھا۔ خیال رہے کہ اس وقت پوری دنیا میں 320ملین فرانسیسی زبان بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ممالک مثلاً سینگل، آئیوی کوسٹ گبن مورینٹیڈ، نائیجیر برونڈئی اور روانڈا کے صدور نے شرکت کی۔ مگر اس اتحاد کے مظاہرے کے باوجود اس کانفرنس پر آپسی اختلافات کا سایہ رہا، یہ تمام ملک اقتصادی، سماجی، سیاسی بدحالی اورخانہ جنگی کا شکار ہیں اور اس کے اثرات کانفرنس پردیکھے گئے۔ مگرفرانس کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS