ترقی کا ’گجرات ماڈل‘بھلے ہی جھوٹ، فریب اور دھوکہ ثابت ہوا ہو لیکن اس کا ڈھول پیٹ کر بھارتیہ جنتاپارٹی نے پورے ملک کو پابرہنہ اپنے تعاقب میں لگا لیا اورا قتدار پر قابض بھی ہوگئی۔ اسی گجرات ماڈل کے صدقے وزیراعظم نریندر مودی اپنی دوسری مدت کار پوری کررہے ہیں، امکان یہ بھی ہے کہ تیسری بار بھی زمام اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہی ہو۔اب ترنمول کانگریس بھی بھارتیہ جنتاپارٹی کے نقش پا پر چل رہی ہے۔مقصد بنگال سے باہرکسی ریاست میں حکومت بنانابھلے ہی نہ ہو لیکن ترقی کے ’ مغربی بنگال ماڈل‘ کا ڈنکا ضرور بجارہی ہے۔اگلے16فروری کو ہونے والے تریپورہ اسمبلی انتخاب کیلئے ترنمول کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ پارٹی نے تریپورہ کے ووٹروں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو اگلے 5 سالوں میں 2 لاکھ سرکاری نوکریاں پیدا کی جائیں گی اور پہلے سال میں 50,000 نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ ہر سال ایک لاکھ بے روزگار نوجوانوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ہر گھر کی خاتون سربراہ کو بنیادی آمدنی فراہم کرنے کیلئے عام زمرے سے تعلق رکھنے والوں کو 500 روپے ماہانہ اور درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کو 1000 روپے ماہانہ کی امداد دی جائے گی۔
60رکنی تریپورہ قانون ساز اسمبلی کے ہونے والے انتخاب کیلئے ترنمول کانگریس نے فقط28سیٹوں پر ہی امیدوار کھڑے کیے ہیں، ان امیدواروں کی صدفیصد جیت کا بہرحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی طے ہے کہ ترنمول کانگریس تریپورہ میں حکومت نہیں بناسکتی ہے۔اس واضح حقیقت کے باوجود خواب دکھانے کے معاملے میں ترنمول نے بی جے پی کو بھی مات دے دی ہے۔ صاف، شفاف اوربدعنوانی و اقربا پروری سے پاک حکمرانی کے عزم کا اعلان کرتے ہوئے تریپورہ کے ووٹروں سے ترنمول نے 2.4لاکھ کسانوں کو 10 ہزارروپے سالانہ مالی امداد اوراعلیٰ تعلیم کے خواہش مند طلبا کو فقط 4 فیصدکی شرح سود پر 10لاکھ روپے تک کے مفت قرض دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ وعدوں کی طولانی فہرست میں اسکل یونیورسٹی قائم کرنے، ٹیچر ٹریننگ کالج بنانے اور ہر بلاک میں ایسی دوا کی دکانیں کھولنے کا بھی اعلان ہے جہاں67.25فیصد کی رعایت پر ہر طرح کی دوائیں اور سرجری کے سامان دستیاب ہوں گے۔اس فہرست میں ریاست کی تقریباً10ہزار کلو میٹر کی کچی سڑکوںکو پختہ بنانے اور درجنوں ایسے وعدے اور اعلان شامل ہیں جو لق و دق صحرا کو موجیں مارتاہوانیلگوں سمندر دکھانے جیسا ہے۔
جاگتی آنکھوںکا یہی خواب بھارتیہ جنتاپارٹی نے2014کے پارلیمانی انتخاب سے پہلے دکھایا تھا،ہر سال2لاکھ سرکاری ملازمت، کالے دھن کی واپسی اور ہر ہندوستانی کے ذاتی بینک کھاتہ میں 15 سے20لاکھ روپے یوں ہی مل جانے کا اعلان کیا تھا۔ترنمول کانگریس بھی تریپورہ کے ووٹروں سے وعدے کررہی ہے اور اس کیلئے اس نے ’مغربی بنگال کے ترقیاتی ماڈل ‘کونظیر کے طور پر پیش کیاہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مغربی بنگا ل میں کسی ترقیاتی ماڈل کا کوئی حقیقی وجود بھی ہے؟ جس طرح گزرتے وقت کے ساتھ گجرات کا ترقیاتی ماڈل ڈھول کا پول کا ثابت ہوا، اسی طرح مغربی بنگال کا ترقیاتی ماڈل بھی ہوا بھرا ہوا ایسا غبارہ ہے جو حقیقت کا ایک ذراساخار کا بھی سہارنہیں سکتا۔ مغربی بنگال میں اگر کوئی چیز پروان چڑھی ہے تو وہ ترقی، خوشحالی اور استحکام نہیں بلکہ بدامنی،غنڈہ گردی، جمہوریت کشی، بے روزگاری، نقل مکانی،رشوت خوری، بدعنوانی اور گھوٹالے ہیں۔ ایسے غلیظ ترین گھوٹالے جنہوں نے بنگال کے نوجوانوں کا مستقبل تاریک کر ڈالا ہے اور ان کی آنکھوں میں سجے مستقبل کے خواب نوچ ڈالے ہیں۔
ایسے میں تریپورہ جاکر صاف شفاف اور بدعنوانی سے پاک حکومت کا وعدہ وہاں کے ووٹروں کے ساتھ دھوکہ اور کھلا فریب ہی سمجھاجائے گا۔ بدعنوانی و گھوٹالوں کی غلیظ، متعفن اور مکروہ مثالوں سے بھرا ہوا مغربی بنگال کایہی ترقیاتی ماڈل کچھ مہینے پہلے گوا بھی گیا تھا۔ مگر انتخابی نتائج نے بتادیا کہ وہاں مقصد حکومت بنانا نہیں بلکہ اپوزیشن اتحاد کا ووٹ کاٹنا تھا۔
تریپورہ میںبھی بعینہٖ یہی خدشہ ہے۔ اگر وہاں حکومت بنانامقصود ہوتا تو وہ بی جے پی مخالف جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوکر مقابلہ کرتی۔28سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرکے بلند بانگ دعوے کرنا اور ووٹروں کوکبھی نہ پورے ہونے والے خواب میں الجھانا دراصل بائیں محاذ -کانگریس اتحاد کا ووٹ کاٹ کر بی جے پی کی راہ ہموار کرنا ہے۔
[email protected]