ایم اے کنول جعفری: ذات پر مبنی مردم شماری سے پسماندہ طبقات کو فیض

0

ایم اے کنول جعفری

4 فروری کو اُناؤ میںاُترپردیش کے بی جے پی کے پسماندہ طبقات کا چہرہ مانے جانے والے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے ذات پات کی مردم شماری کی حمایت کرکے بہارحکومت کے فیصلے پر مہر لگا دی۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے ذریعہ بہار میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیات پر سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ سماعت کے دوران جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس وکرم ناتھ کی دو رکنی بنچ نے دائر درخواستوں کو خارج کر دیا۔ ججوں کی بنچ نے درخواست گزار وں کے وکیل سے کہا کہ انہیں مقبولیت حاصل کرنے کے ارادے سے داخل کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں تین درخواستیں دائر کی گئیں۔ اکھلیش کمار کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا نوٹیفکیشن بنیادی روح کے خلاف اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔ نوٹیفکیشن کو کل عدم قرار دیا جائے۔ ہندو سینا کی طرف سے دائر درخواست میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے نوٹیفکیشن پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بہار حکومت اس عمل سے ملک کے اتحاد اور سا لمیت کو توڑنا چاہتی ہے۔
دراصل، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں کئی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ان مذاہب میں کئی ذاتیں اور ان کے الگ الگ ریت رواج ہیں۔ ان کے طریقہ کار اور روایات بھی مختلف ہیں۔ پسماندہ طبقات میں ذات پات کی خاصی اہمیت ہونے کی بنا پر ان کی شناخت بھی الگ ہے۔کئی صوبوں میں ذات پات کے اعدادوشمار اہم ہونے کی وجہ سے وہاں کے انتخابی نتائج پر ان کا اثر پڑتا ہے۔ اس بنا پر کئی افراد کا ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کا اصرار تھا۔ امید ہے کہ اس سے لوگوں کے ساتھ انصاف ہوسکے گا اور وہ سماجی طور پر برابری حاصل کر سکیں گے۔ انہیں اپنی تعداد کے تناسب سے تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں مناسب نمائندگی مل سکے گی۔بہار میں پچھڑے اور پسماندہ طبقات کے لیے فلاح و بہبود کی اسکیمیں شروع کرنے کے مقصد سے 18فروری 2019کو اور پھر اس کے بعد 27فروری2020کو بہار قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے سے متعلق تجویز پیش کی گئی۔ تب بی جے پی،آر جے ڈی اور جے ڈی یو سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے تجویز کی حمایت کی تھی،لیکن نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت اس تجویز کے خلاف تھی۔ اس نے عدالت عظمیٰ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں ہونی چاہیے۔اس نے کہا تھا کہ ذاتوں کی گنتی ایک طویل اور مشکل کام ہے۔ اس کے باوجود نتیش کمار کی حکومت نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اس کام کو اسی برس مئی تک پورا کرلینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے بعد 7جنوری سے پٹنہ کے وی آئی پی علاقوں میں سروے کا کام شروع ہوا۔ پہلے مرحلے کے تحت گھروں کی گنتی کا کام ہوا،لیکن ابھی گھروں کو نمبر الاٹ نہیں کیے گئے۔ اس کی وجہ ووٹر شناختی کارڈ اور میونسپل کارپوریشن کے ہولڈنگ میں نمبر کا الگ الگ ہونا ہے۔ پنچایت سطح پر گھروں کی کوئی نمبرنگ نہیں ہے۔ شہری علاقوں میں کچھ محلوں کے مکانات کو نمبر دیے گئے ہیں،لیکن یہ نمبر ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے دیے گئے ہیں۔حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر انہیں نئے سرے سے نمبر دیے گئے ہیں۔ 7؍جنوری سے21جنوری تک مردم شماری کے پہلے مرحلے میں گھروں کی گنتی کرکے انہیں مستقل نمبر دینے کے علاوہ کنبوں کی تعداد مہیا کی گئی ہے۔ اس دوران کنبے کے ہیڈ اور ممبران کی تعداد وغیرہ کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔تین دن کے جائزے کے بعد25جنوری کو فائنل رپورٹ سرکار کے سامنے پیش کی گئی۔کسی کنبے کے شامل نہیں ہونے کی صورت میں اسے فوری طور پر مردم شماری کے عمل سے جوڑا جائے گا۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے 30اپریل تک جاری رہے گا۔یہ کام 38 اضلاع کے534بلاکس اور261شہری علاقوں کے 2.58کروڑ خاندان پر مبنی 12.70کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔اس میں معاشی حالت کے علاوہ لوگوں کی تعلیم، نوکری، نوکری کی سرکاری، پرائیویٹ، گزیٹیڈ، نان گزیٹیڈ قسم، گاڑی، موبائل، کام کی مہارت، آمدنی کے دیگر ذرائع، خاندان میں کمانے والے لوگوں کا بیورا ، ایک شخص پر کتنے افراد منحصر، اصل ذات، ذیلی ذات، ذیلی کی ذیلی ذات، گاؤں میں ذاتوں کی تعداد، ذات سرٹیفکیٹ وغیرہ سے متعلق کئی سوالات کی جانکاری کا اندراج کیا جائے گا۔ مردم شماری کے لیے ٹیچروں،آنگن باڑی،منریگا اور جیویکا ورکرس کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اس کے لیے500کروڑ روپے مصارف کی ہنگامی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ نتیش کمار یادو کے علاوہ نائب وزیراعلیٰ تیجسوی پرسادیادو نے بھی ریاست کے سبھی اضلاع میں ذات پر مبنی مردم شماری کے عمل کو تاریخی قرار دیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا یہ عمل حکومت کو سماج کے کمزور طبقات کے مفاد کی سمت میں کام کرنے کے لیے سائنٹفک اعدادوشمار مہیا کرائے گا۔ بہار میں جے ڈی یو،آر جے ڈی اور کانگریس پر مشتمل عظیم اتحاد کی سرکار کے ذریعہ اٹھائے گئے اس تاریخی قدم کے تحت عمل کے مکمل ہونے کے بعد یہ محروم ذات سمیت سماج کے مختلف طبقات کے مفاد کے لیے کام کرنے کی سمت میںجو سائنٹفک ڈیٹا مہیا کرائے گا،اس سے یقینی طور پرعوام کو خاطرخواہ فائدہ پہنچے گا۔ بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ شروع ہی سے اس کی مخالفت کرتی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کی سیاست میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری ایک اہم ایشو رہا ہے۔اس بابت نتیش کمار کی سیاسی جماعت جنتا دل یونائیٹڈ(جے ڈی یو) اور عظیم اتحاد کی سبھی فریق جماعتوں کی جانب سے لمبے عرصے سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ذات پات پر مبنی مردم شماری صرف بہار ہی میں نہیں ہو رہی ہے۔ اس سے قبل راجستھان اور کرناٹک میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری ہوچکی ہے۔
ملک کی مختلف اور خاص کر ہندی بولنے والی ریاستوں میں پسماندہ طبقات کی کافی اہمیت ہے۔ قریب قریب تمام سیاسی جماعتیں پسماندہ طبقات کے ساتھ ہمدردی کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن عملی طور پر اقدامات میں پس و پیش کا شکار ہوجاتی ہیں۔ انتخابات کے موقع پر انہیں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے جائز مطالبات کی تکمیل نہیں کی جاتی۔ بی جے پی کو اعلیٰ ذات کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی امیج تبدیل کرنے کی کوشش تو کرنا چاہتی ہے،لیکن اس نے اس کے لیے کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر ذات پر مبنی غریب لوگوں کی لسٹ ایک جگہ ہوگی تو اس سے پلاننگ کرنے میں آسانی ہوگی اور پچھڑے و پسماندہ طبقے کے لوگوں کو خاطرخواہ فیض پہنچے گا۔ صحیح تعداد کا علم ہونے پر انہیں ترقی کی راہ پر آگے بڑھانے میں مددگارمنصوبے بنائے جا سکیں گے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کے تعلق سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور دیگر ریاستوں میں بھی اسے نافذ کیا جائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS