رمیش بدھوڑی کے بیان کو کوڑے دان میں پھینک دیں : پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

0
پارلیمنٹ میں غیر پارلیمانی اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال لمحۂ فکریہ

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

ہم بھارت کے لوگ ۔ ہمارے آئین کی تمہید ہیں پہلا جملہ یہی ہے اس کی بنیاد پر ہمارے ہندوستان ایک خود مختار ، مکمل اقتدار اعلیٰ کا حامل سوشلسٹ ، سیکولر جمہوری ملک ہے۔ حال ہی میں جی-20چوٹی اجلاس 2023میں ’واسو دیو کٹمبکم ‘ جو ایک سنسکرت کی اصطلاح ہے او رجس کا مطلب پوری دنیا ایک خاندان ہے۔ یہ ملک میں بھائی چارے کو فروغ دینے والی اصطلاح اور یہی ہمارے ملک کی قیادت میں ہونے والی جی-20کے اجلاس کا بنیادی نعرہ تھا۔ دہلی اعلامیہ میں اس کو بین الاقوامی روپ دیا گیا یہ ایک آئیڈیل فلسفہ ہے جو آفاقیت بھائی چارے اور تمام مخلوقات کے درمیان باہمی راہ ورسم اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔

پچھلے ہفتہ جنوبی دہلی کے ممبر پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے ایک براہ راست نشریہ میں غیر مہذب سلوک کی تمام حدیں ختم کردیں۔ اپنی بدزبانی سے بدھوڑی نے اپنا چہرہ بھی داغدار کردیا اور بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا۔ رمیش بدھوڑی نے کنور دانش علی کو گالیاں دیں۔ دانش علی کو بھڑوا، کٹوا، دہشت گرد، غدار جیسے الفاظ سے پکارا اسپیکر اوم برلا کو ان الفاظ کو ریکارڈ سے فوراً ہی نکال دیناچاہیے تھا۔

کیا مہابھارت میں دھریترا شٹر کی عزت بچائے رکھنے کے لیے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی ۔ کیا اس کے کانوں میں روئی ڈالی گئی تھی؟ پارلیمنٹ کے اندر ہونے والے اس شرمناک اقدام کو پورے ملک اور بیرون ملک نے دیکھا۔ بدھوڑی نے لوک سبھا میں ’چندریان-3 کی کامیابی‘ پر بحث کے دوران پر متنازع تبصرہ کیا۔ یہ بات بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کو نشانہ بناتے ہوئے کہی۔ اس کے بعد ایوان میں ہنگامہ شروع ہوگیا اور اپوزیشن لیڈروں نے جنوبی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے ایوان میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کے متنازعہ بیان کو ’سنجیدگی سے‘ لیا ہے اور انہیں خبردار کیا ہے کہ اگر مستقبل میں ایسا رویہ دہرایا گیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ کیا یہ بہت ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کو رمیش بدھوڑی جیسے غنڈوں کو پارٹی سے نکال سے نکال کر کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔ کیا اس طرح کے ہندوتوا کی علامت ہے؟ یہ گھناؤنے کام کرنے والوں کی سیاسی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے رمیش بدھوڑی کو نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ اسپیکر اوم برلا نے بدھوڑی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں ایسا رویہ دہرایا گیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اگلی بار کیوں، ابھی کیوں نہیں۔ کنور دانش علی کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے پر بی جے پی پارٹی کے صدر جے پی نڈا کی ہدایت پر پارٹی ایم پی رمیش بدھوڑی کو ’ وجہ بتائو نوٹس‘ جاری کیا گیا ہے۔ بدھوڑی کے تبصرے کے فوراً بعد ایوان میں موجود وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ رکن اسمبلی دانش علی نے اس معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ میرے ساتھ انصاف ہو گا اورا سپیکر ایکشن لیں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو میں ایوان چھوڑنے پر غور کروں گا۔

دانش علی کئی ٹی وی چینلز پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے روتے ہوئے نظر آئے۔ نشی کانت دوبے نے جو ایک ماہر اقتصادیات ہیں، اس تنازعہ کی نوعیت کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسپیکر کو لکھے خط میں نشی کانت لکھتے ہیں، ’’دانش علی نے پی ایم نریندر مودی کے خلاف انتہائی قابل اعتراض اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ میرے خیال میں یہ کسی بھی محب وطن عوامی نمائندے کا صبر کا پیمانہ لبریز کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘

رمیش بدھوڑی نے انہیں اسی نویت کا جواب دیا۔یہ بہت شرم کی بات ہے! نشی کانت دوبے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کنور دانش علی نے کہا، ’’میں نے وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بچانے کے لیے کام کیا، کچھ بی جے پی لیڈر یہ بیانیہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں نے رمیش بدھوڑی کو پارلیمنٹ میں اشتعال دلایا تھا، جبکہ سچائی یہ ہے کہ ’’میں نے وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بچانے کے لیے کام کیا اور چیئرمین سے مودی جی سے متعلق انتہائی قابل اعتراض الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا،‘‘ علی نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا۔ دوسری طرف بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 21 ستمبر کو رمیش بدھوڑی نے کنور دانش علی کو گالی دی اور ان کے مذہب سے متعلق نازیبا تبصرے کیے۔ بی جے پی نے رمیش بدھوڑی کے بیان کی مذمت کی ہے اور انہیں ’وجہ بتائو نوٹس‘ جاری کیا ہے اور ان سے 15 دن کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں کانگریس، ڈی ایم کے، این سی پی، آر جے ڈی، عام آدمی پارٹی، بی آر ایس۔ اور ٹی ایم سی نے اسپیکر اوم برلا کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ رمیش بدھوڑی کے طرز عمل اور تبصروں کا معاملہ پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کو بھیجا جائے اور ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ کارروائی کے لیے استحقاق کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے بدھوڑی کے بیان کی سخت مذمت کی ہے۔ جبکہ ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ یا اے آئی ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے دعویٰ کیا ہے کہ رمیش بدھوڑی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اویسی نے کہا کہ ’’اس بات کا امکان ہے کہ انہیں بی جے پی دہلی ریاست کا صدر بنایا جا سکتا ہے، آج ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جیسا کہ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ کیا تھا‘‘۔ مختصر یہ کہ میں بہت پریشان اور حیران ہوں! کیا یہ لیڈر سماج کو پولرائز کرکے ملک میں خطرناک صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ’ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی ہم سب بھائی ہیں‘ کا اصول ختم ہو گیا ہے؟ کیا ہندوستانی آئین مسلم کمیونٹی کے خلاف اس طرح کی زیادتیوں کی اجازت دیتا ہے؟ جی ہاں، کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے بھی پی ایم نریندر مودی کو ’موت کا سوداگر‘ کہا تھا۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نے سونیا گاندھی کو ’اطالوی بار ڈانسر یا پاستا آنٹی‘ وغیرہ کہا۔ راہل گاندھی کو ’پپو‘ بھی کہتے ہیں! بی ایس پی سربراہ محترمہ بہن مایاوتی نے نعرہ دیا ’تلک ترازو اور تلواریں ان کو مارو جوتے چار‘۔ مایاوتی نے پھر سے اسی برہمن ستیش مشرا کو اپنا چیف ایڈوائزر اور راجیہ سبھا ممبر بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی تناظر میں سیاسی بحثوں میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر سیاست مکمل طور پر سرگرم ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ نئی نسل پر رمیش بدھوڑی جیسے حقیر، شیطان صفت جیسے لوگوں کے کیا اثرات ہوں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اگلے سالوں کو ’آزادی کا امرت کال‘ قرار دیا ہے۔ پھر ایسے سنہرے دور میں اتنا زہر کیوں اْگلا جا رہا ہے؟ بی جے پی کا ’کردار، چال اور چہرہ‘، رمیش بدھوڑی جیسے غیر مہذب لوگوں کو نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ’آپ کے لیے آپ کا مذہب اور میرے لیے میرا دین مبارک ‘۔ میں اپنے ہم وطنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈروں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کا بائیکاٹ کریں اور خود بھی اس طرح کی چیزوں سے اجتناب کریں۔ ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں،ہم سب ایک ہیں!

(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS