الیکشن کمیشن کی طرف سے لوک سبھا انتخابات کے پہلے اوردوسرے مرحلے کی پولنگ کے اعدادوشمار کچھ اس طرح جاری کیے گئے کہ وہ اپوزیشن کیلئے قابل قبول نہیں ہیں۔ ای وی ایم پر سوال اٹھانے والی اپوزیشن پارٹیاں اب پولنگ کے اعداد و شمار پر سوال اٹھا رہی ہیں۔دراصل پولنگ کا تناسب کچھ اس طرح جاری کیا گیا کہ سوال کھڑے ہونا فطری ہے۔جہاں ایک ایک ووٹ سے ہارجیت ہوتی ہو، وہاں 5-6فیصد ووٹنگ کاتناسب بڑھنے سے سبھی کے کان کھڑے ہوجائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھارہی ہیں اورالیکشن کمیشن کی وضاحت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔پہلے شیوسینا یوبی ٹی، پھرکانگریس اوراب ترنمول کانگریس نے اس کے خلاف بیان دیا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا ‘ میں شامل تما م پارٹیوں کو مکتوب بھیج کر کہا ہے کہ اس بار الیکشن کمیشن کی معتبریت بہت کم ہے، آپ لوگ ایسی بے ضابطگی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہمیں الیکشن کمیشن کی خودمختاری اور جوابدہی کو یقینی بنانا چاہیے، جبکہ شیوسینا ادھوگروپ کے لیڈر سنجے راوت نے یہاں تک کہہ دیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کاجو تناسب بڑھایا، بڑھے ہوئے ووٹ کہاں سے آئے؟سب کچھ ڈیجیٹل ہے تو پولنگ کا تناسب پتہ لگانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ ترنمول کانگریس نے الیکشن کمیشن کو مکتوب بھیج کر کہاہے کہ پہلے مرحلہ کی پولنگ کا تناسب ووٹنگ کے 11دنوں بعد اس وقت جاری کیا گیا، جب دوسرے مرحلہ کی پولنگ کو بھی 4 دن گزر گئے۔
اس پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن نے اطمینان بخش وضاحت تک نہیں کی۔ ترنمول کانگریس نے یہ بھی مانگ کی کہ ہرلوک سبھا حلقہ کی پولنگ کا تناسب شیئر کیا جائے۔ساتھ ہی الیکشن کمیشن یہ بھی بتائے کہ پہلے اور دوسر ے مرحلے کی پولنگ میں کس سیٹ پر کتنی ووٹنگ ہوئی؟ وہاں کتنے رائے دہندگان ہیں؟کتنے لوگوں نے ووٹ ڈالا؟ اور ووٹنگ تناسب کے حتمی اعداد و شمار جاری کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟
دراصل الیکشن کمیشن نے پہلے اور دوسرے مرحلے میں پولنگ کے بعد جو اعداد وشمار جاری کیے تھے، وہ بالترتیب 60 اور61فیصد تھے، لیکن پہلے مرحلہ کی پولنگ کے11دنوں بعد اور دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے 4دنوں بعدتفصیل کے ساتھ جو حتمی اعداد و شمار جاری کیے، ان کے مطابق پہلے مرحلہ میں 66.14 فیصداور دوسرے مرحلے میں1 66.7 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ واضح رہے کہ پہلے مرحلہ میں 102 اور دوسرے مرحلہ میں 88سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے تھے۔ جب اپوزیشن نے پولنگ کے تناسب میں اضافہ پر سوال اٹھایا تو الیکشن کمیشن نے اس کی وضاحت بھی کی، لیکن وہ وضاحت اپوزیشن کو قبول نہیں ہے۔ وہ کمیشن کی شفافیت پر سوال اٹھا رہی ہے، لیکن پول پینل اپنے کام اورصاف ستھرے انتخابات کرانے کے مشن میں آگے بڑھتا جارہا ہے، چنانچہ آج مزید 93حلقو ں میں تیسرے مرحلے کے انتخابات بھی ہوگئے، اس طرح نصف سے زیادہ 283 سیٹوںپر ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اورامیدواروں کی قسمت ای وی ایم مشینوں میں قید ہوگئی، جو 4جون کو گنتی کے بعد سامنے آئے گی۔ ابھی بھی 4مرحلے کے انتخابات باقی ہیں۔انتخابات کے دوران اپوزیشن کی طرف سے اس طرح الیکشن کمیشن کی کارکردگی اوررول پر سوال اٹھانا نہ تو ملک کے لیے صحیح ہے اورنہ ہی جمہوری عمل کے لیے۔الیکشن کمیشن کو بھی اپنا کام اس طرح کرناچاہیے کہ کسی کے لیے بھی شک وشبہ کی ذرا بھی گنجائش نہ ہو۔جب دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے حتمی اعداد و شمار 4دن میں تیار ہوگئے، تو پہلے مرحلہ کی پولنگ کے حتمی اعداد و شمار تیارکرنے میں 11دن کیسے لگ گئے ؟ اس حساب سے دیکھاجائے تو آخری مرحلہ کی پولنگ کے حتمی اعداد و شمار آنے سے پہلے ووٹوں کی گنتی ہوجائے گی۔ ووٹوں کی گنتی جب ایک دن میں ہوجاتی ہے تو پولنگ کے تناسب کا پتہ لگانے میں اتنا وقت نہیں لگناچاہیے۔
الیکشن میں غیرجانبداری، شفافیت اور آزادی بہت ضروری ہے اوریہ تینوں چیزیں الیکشن کمیشن کی کارروائی سے ہی یقینی بنتی ہیں۔سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کرتی رہتی ہیں اورآگے بھی کرتی رہیں گی، یہی تو سیاست ہے، لیکن کمیشن کو سیاست میں اس طرح نہیں گھسیٹنا چاہیے کہ اس کی معتبریت ختم ہوجائے۔ملک کے جمہوری عمل میں الیکشن کمیشن بہت اہم کڑی ہے۔ اس کو سیاست سے دور رکھناچاہیے۔ اس کے ساتھ سیاسی حریف جیسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے دائرے میں رہنے کی ضرورت ہے اور الیکشن کمیشن کو ہر حال میں شفافیت اور غیرجانبداری کو برقرار رکھنا چاہیے۔
[email protected]